عورتوں کو بھی جمعہ کی نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ پڑھنا ضروری ہے۔ جس طرح مردوں پر ضروری ہے کیا عورتیں بھی جمعہ کی نماز مسجد میں آ کر جماعت کے ساتھ نہ پڑھنے سے اسی طرح گناہ گار ہوں گی، جس طرح مرد گناہ گار ہوتے ہیں۔ ایک مولوی صاحب کا کہنا ہے کہ عورتوں پر جمعہ کی نماز اسی طرح فرض ہے جس طرح مردوں پر۔ ان کا استدلال یہ ہے۔ کہ سورۃ جمعہ کی آیت یَااَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمنوا الخ کے عموم میں مردوں کے ساتھ عورتیں بھی شامل ہیں ہم نے ان کی خدمت میں مشکوٰۃ کی یہ دو حدیثیں پیش کیں:
(۱) عن طارق بن شھاب قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم الجعمة حق واجب علٰی کل مسلم فی جماعة الَّا علی أربعة عبدٍ مملوك او اِمْرَأة او صَبِیٍّ او مَرِیْضٍ (رواہ احمد)
(۲) عن جابر أن رسول اللہ قال: «من یومن باللّٰہِ والیوم الاخر فعلیه الجمعة ویوم الجمعة إلا مریض أو مسافر أو امرأة أو صبی أو مملوك» (دارقطنی)
ان دونوں حدیثوں میں پہلی حدیث کے بارے میں مولوی صاحب فرماتے ہیں۔ کہ اگرچہ سند کے اعتبار سے طارق کی حدیث صحیح ہے، لیکن طارق صحابی نہیں ہیں، اور نہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سنا ہے۔ تو یہ حدیث مرسل ہوئی اور حدیث مرسل ایسی حجت نہیں ہے، جو عموم قرآن متواتر کی تحصیص کر سکے۔
حدیث جابر کے متعلق وہ فرماتے ہیں کہ وہ ضعیف ہے اس لیے ان دونوں حدیثوں سے عورتوں کو مستثنیٰ کرنا درست نہیں ہے۔ لہٰذا عورتوں پر جمعہ کی نماز جماعت کے ساتھ مسجد میں آ کر پڑھنا فرض ہے۔ وہ مولوی صاحب یہ بھی فرماتے ہیں کہ اہل ظاہر نے عبد مملوک پر جمعہ کو واجب ٹھہراتے ہوئے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ وہ ملا باری مولوی صاحب کا استدلال صحیح ہے یا غلط ہے اور ان حدیثوں کے بارے میں ان کی تنقید درست ہے یا نہیں، معلوم کرائیں، جمعہ کی نماز میں عورتوں کے شریک ہونے کو ہم جائز تو سمجھتے ہیں۔ مگر ان کی شرکت کی فرضیت تحقیق طلب ہے، ازراہ کرم صحیح مسئلہ کیا ہے اور سلف کا تعامل کیسا رہا ہے معلوم کرا کے ممنون فرما دیں۔ (والسلام سید عنایت اللہ)
عورت پر جمعہ کی نماز فرض نہیں ہے اور مذکورہ سوال کی حدیثیں قابل حجیت ہیں۔ طارق بن شہاب کی روایت بھی صحیح سند سے مروی ہے۔ تلخیص الجبیر جلد ۱ صفحہ ۱۳۰ میں ہے۔
«الجمعة حق واجب علی کل مسلم فی جماعة إلا اربعة عبد أو امرأة أو صبیّ أو مریض» (ابو داؤد)
من حدیث طارق ابن شھاب عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم رواہ الحکم من حدیث طارق ھذا عن أبی موسی عن النبی صلی اللہ علیه وسلم وصححہ غیر واحد
اور اس کی تائید ابن خزیمہ کی حدیث سے ہوتی ہے، چنانچہ تلخیص کے اسی صفحہ پر ہے۔
وأخرجه ابن خزیمة من حدیث ام عطية نھینا من اتباع الجنائز ولا جمعة علینا کذا أخرجه بھذا اللفظ وترجمه علیه اسقاط الجمعة عن النساء
لہٰذا یہ حدیثیں صحیح قرآن مجید کی مخصص ہو جائیں گی مالا باری مولوی صاحب کا استدلال درست نہیں ہے۔ اور حدیث مذکورہ درایہ صفحہ ۱۳۲ میں بھی ہے۔ اس میں عن تمیم الداری رفعه الجمعة واجبة الخ اور عن ابن عمر رفعه الخ وعن جابر رفعه الخ اس حدیث کے چار صحابی ابو موسیٰ اور تمیم الداری اور ابن عمر اور حضرت جابر روایت کرنے والے ہیں۔ لہذا ارسال اور ضعف جاتا رہا۔ واللہ أعلم بالصواب (اہل حدیث دہلی جلد نمبر ۵ ش نمبر۳۲)
وَوَرَدَ عَلیه دَامَت رحمة البَاری تَتْرِیْ اِلیه
ھذا السَّوالُ ولفظه ما قولکم رضی اللہ عنکم فی رجل یجھر بالقراءة فی المسجد حال تلاوته ویتأذی بجھرہ المصلون ھل له أجر علی جھرہ ام لا افتونا ماجورین فاجاب بقوله رضی اللہ عنہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم الحمد للہ وکفی وسلام علی عبادہ الذی اصطفی وبعد فقد ورد عن ابی سعید رضی اللہ عنه قال اعتکف رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فی المسجد فسمعہم یجھرون بالقرأة فکشف الستر وقال ألا کلکم مناجٍ ربہ فلا یؤذین بعضکم بعضا ولا یرفع بعضکم علی بعض فی القرأة أو قال فی الصلاة اخرجه أبو داؤد قال المنذری واخرجه النسائی وأقل السید محمد بن إسماعیل الأمیر و حدیث لا یشغلن قارئکم مصلیکم حدیث غیر صحیح إلا أنه قد ثبت معناہ وذلك أنه صلی اللہ علیہ وسلم صلی بعض الصلٰوة التی یجھر فیھا بالقراءة فلما انصرف قال للذین خلفه ھل تقرأون إذا جھرت فقال بعضھم ان لنصنع ذلك قال فلا تفعلوا إلا بأم القراٰن فإنه لا صلٰوة لمن لم یقرأ بھا أخرجه أبو داؤد والترمذی وغیرھما وھذا فی الجھریة و ثبت فی السریة مثل ذلك وإذا نھی صلی اللہ علیہ وسلم عن القرأة فی الصلٰوة لئلا یختلط علی الإمام فالنھی عن القراءة لمن ھو خارج الصلٰوة کا لذی یدرس جھراً والناس یصلون ولو واحداً اولی وکل فعل منھی عنہ فلا أجر فیه بل فیہ الاثم فمن أراد بعلوا القراءة فی مسجد لا تزال الصلٰوة فیه فیجب علیه اسرار تلاوته واللہ أعلم انتھیٰ کلام السید محمد بن اسمعیل الأمیر بلفظ فإذا علمت ھذا فاعلم انّ ما قید به السید یکون الناس یصلون لیس بقیدٍ فی الحقیقة ویدلك علی ذلك الحدیث المتقدم فی ابو داؤد عن أبی سعیدٍ وفیه اعتکف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فسمعہم یجھرون بالقرأة الخ فإن فیه ایذاء الناسِ بالقرأة وھم فی الصلوة أو فی غیرھا منھی عنه قال النووي فی شرح مسلم فی کتاب فضائل القراٰن قوله سمع النبی صلی اللہ علیہ وسلم رجلا یقوأ باللیل فقال یرحمه اللہ لقد اذکر فی کذا و کذا آیة فی ھذاہ الألفاظ فوائد منھا جواز رفع الصوب القرأة فی المسجد باللیل ولا کراھة فیہ إذا لم یؤذ أحدًا ولا تعرض للریاء والاعجاب ونحوِ ذلك انتھیٰ وقال الحافظ ابن حجر فی فتح الباری فی باب رفع الصوتٍ بالتکبیر بعد ذکر حدیث ابی موسٰی کنا إذا اشرفنا علی وادٍ ھللنا وارتفعت أصواتنا الخ قال الحافظ قال الطبری فيه کراہیة رفع الصوت بالدعاء والذکر و به قال عامة السلف من الصحابة والتابعین انتھیٰ فقد بأن الحق واتضح بما اوردناہ من الأحادیث وکلام شراحه بان رفع الصوت بالقرأة إذا کان ممّا یتاذی به من فی المسجد سواء کانوا یصلون أو غیر مصلین منھی عنہ وقد ایّدنا ذلك بنام نقلناہ عنه صلی اللہ علیہ وسلم وبمأ اتفق علیه السلف من الصحابة والتابعین کما مرعن الطبری والنووی ونقلہ الحافظ عن الطبیری مرتضیا له واللہ أعلم وعلمه اتم واحکم وھو حسبنا و نعم الوکیل ولا حول ولا قوة إلا باللہ العلی العظیم وصلی اللہ علی سیدنا محمد وآله وصحبه وسلم۔
(نور العین فتاویٰ شیخ حسین ص ۹۷)