السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص نے تنخواہ کے جواز پر آیت﴿اِنَّمَا الصَّدَقٰت…﴾میں عاملین زکوٰۃ کے مصرف ِ صدقہ ہونے سے استدلال کرکے یوں کہا کہ ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عامل کو صدقہ کے مال سے تنخواہ دو‘‘ دوسرے شخص نے کہا یہ خط کشیدہ حکم اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا جھوٹا ہے۔ پوچھنا یہ ہے کہ مذکورہ خط کشیدہ قول پر قرآن مجید میں کوئی دلیل موجود ہے؟
(۲) نیز اس کے قائل نے یہ بھی کہا ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے بھی دینی امورپر اجرت کے جواز کا فتویٰ ہے دوسرے شخص نے کہا کہ یہ بھی جھوٹ ہے متاخرین احناف سے جواز کا فتویٰ ہے۔ ان دونوں میں سے کس نے صحیح کہا ہے ؟ (حافظ محمد بابر) (۱۶ جنوری ۲۰۰۴ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عامل (یعنی زکاۃ لانے والے) کو تحصیل زکوٰۃ کے سلسلہ میں جو کچھ ملتا ہے ، اس کا نام ’’حق الخدمت‘‘ ہے ، تنخواہ نہیں۔ تنخواہ تو ماہانہ وظیفے کا نام ہے جس کی مستقل حیثیت ہے جب کہ عامل کی کمائی ایک وقتی چیز ہے جو محض کام کا عوض ہے۔
(۲) امام ابوحنیفہ دینی امور پر اُجرت کے قائل نہیں تھے جب کہ متاخرین حنفیہ کا فتویٰ جواز کا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب