السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے موجودہ معاشرے میں زکوٰۃ کا کاروبار ایک مصرف دینی مدارس ہیں۔ کیا نبی اکرمﷺ کے دَور میں یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دَور میں دینی مدارس کو زکوٰۃ دی جاتی تھی۔ اب ہمارے ان مدارس میں کچھ بچے ایسے بھی ہیں کہ جن کے والدین مالدار ہوتے ہیں۔ ان بچوں کے قیام و طعام کے اخراجات مدرسہ ہی برداشت کرتا ہے کیا ان بچوں پر زکوٰۃ کی رقم خرچ ہو سکتی ہے؟ اساتذہ کرام کی تنخواہیں بھی اسی فنڈ سے ادا کی جاتی ہیں۔ کیا یہ موجودہ مصرف جائزہے؟ (محمد اشرف ضلع جہلم) (۵ جون ۱۹۹۸ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
دینی مدارس میں زکوٰۃ کے مستحق امیر کے علاوہ صرف غریب طلبہ ہیں۔ زکوٰۃ کے مال سے مدرس کو بھی تنخواہ دی جا سکتی ہے۔ لیکن اگر غنی ہو تو اُسے بچنا چاہیے۔ اس امر کی تائید قرآن کی اس آیت سے بھی ہوتی ہے۔
﴿لِلفُقَراءِ الَّذينَ أُحصِروا فى سَبيلِ اللَّهِ لا يَستَطيعونَ ضَربًا فِى الأَرضِ... ﴿٢٧٣﴾... سورةالبقرة
یہ صدقات ان فقیروں کے لیے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے راستہ میں بند ہیں۔ زمین میں سفر نہیں کر سکتے یعنی تجارت وغیرہ نہیں کر سکتے۔ (کیونکہ سفر کرنے سے دین کا کام بند ہو جاتا ہے)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب