سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(379) صدقہ فطر اور کھالوں سے قاری صاحب کی تنخواہ کی ادائیگی؟

  • 25494
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 742

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہم نے اپنی مسجد میں مقامی بچوں کی تعلیم کے لیے ایک قاری صاحب رکھے ہوئے ہیں جو صبح و شام بچوں کو قرآنِ مجید کی تعلیم دیتے ہیں۔ کیا ایسی شکل میں قاری صاحب کی تنخواہ(مسجد فنڈ کے علاوہ) صدقہ فطرانہ اور قربانی کی کھالوں سے دی جا سکتی ہے؟ ( سائل حافظ عبدالرحمن صدیقی خطیب جامع مسجد محمدی اہل حدیث تلواڑہ راجپوتاں تحصیل ڈسکہ ضلع سیالکوٹ) (۲۵ دسمبر۱۹۹۲ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورتِ سوال سے ظاہر ہے کہ قاری صاحب جز وقتی اُستاد ہیں۔ بایں صورت اگر موصوف صاحب ِ وسعت ہیں تو خدمت ِ ہذا کو بلا معاوضہ سرانجام دینا چاہیے۔ بصورتِ دیگر ان کی تنخواہ کا بندوبست ہونا چاہیے لیکن صدقہ فطرانہ اور قربانی کی کھالوں سے ان کو کچھ نہیں دیا جا سکتا کیونکہ یہ محض غرباء و مساکین وغیرہ کا استحقاق ہیں۔ قرآن مجید میں ہے:

﴿لِلفُقَراءِ الَّذينَ أُحصِروا فى سَبيلِ اللَّهِ لا يَستَطيعونَ ضَربًا فِى الأَرضِ... ﴿٢٧٣﴾... سورةالبقرة

آیت ہذا سے پہلے صدقات کا ذکر کیا گیا ہے۔ پھر ارشاد ہے، یہ صدقات ان محتاجوں کے لیے ہیں جو اللہ کے راستے میں رُکے ہوئے ہیں۔ زمین میں سفر نہیں کر سکتے۔ یعنی تجارت نہیں کر سکتے کیونکہ ایسا کرنے سے دینی کاموں میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے۔

احادیث میں قربانی کی کھالوں کو صدقہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور آیت ہذا میں صدقات کے مستحق وہ لوگ قرار دیے گئے ہیں جو ’’فی سبیل اللہ‘‘محصور ہیں۔ اس میں اساتذہ کرام اور طلبہ سب شامل ہیں۔ لہٰذا قاری صاحب موصوف کو مذکور فنڈ سے تنخواہ دی جا سکتی ہے۔ تاہم اولیٰ یہ ہے کہ مسجد کے فنڈ کو مستقل طور پر بیت المال کی حیثیت دی جائے جہاں تمام قسموں کے صدقات و خیرات جمع ہوں پھر اسی سے جملہ مصارف کوپورا کیا جائے، جس میں اخراجات لائبریری وغیرہ بھی شامل ہو سکتے ہیں۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الصوم:صفحہ:316

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ