السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا زکوٰۃ سے مدرس کو تنخواہ دی جا سکتی ہے؟نیز اسے عمارت اور تعمیر پر خرچ کرنا کیسا ہے؟قربانی کی کھالوں کا مصرف کیا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن مجید میں زکوٰۃکے آٹھ مصارف بیان ہوئے ہیں۔ ان میں ایک ’’فی سبیل اللہ‘‘ بھی ہے۔ کئی ایک اہل علم نے اس کو وسعت دے کر جملہ امورِ خیر کو اس میں شامل کیا ہے لیکن یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی کیونکہ لفظ ’’فی سبیل اللہ‘‘کو اگر اتنا عام تسلیم کر لیا جائے تو سات مصارف کی چنداں ضرورت نہیں باقی رہتی ۔ اصل بات یہ ہے کہ لفظ ’’فی سبیل اللہ‘‘دشمن کافر سے جنگ جہاد کے ساتھ مخصوص ہے بعض علماء کے نزدیک حج اور عمرہ بھی اس میں داخل ہے۔ جس طرح کہ بعض احادیث میں مصرح ہے۔ ان کے علاوہ دیگر امور کو اس میں شامل کرنا بلادلیل نص قرآنی پرتحکم و زیادتی ہے۔
واضح ہو کہ مدرس کی تنخواہ چونکہ اس کی محنت کا معاوضہ ہوتی ہے جب کہ مالِ زکوٰۃ میں معاوضہ بننے کی صلاحیت نہیں اس لیے مدرس کو بطورِ تنخواہ زکوٰۃ نہیں دی جا سکتی۔ نیز مدرسہ کی عمارت اور تعمیر پر بھی زکوٰۃ کی رقم خرچ نہیں ہو سکتی۔ وجہ پہلے بیان ہو چکی۔
ہاں البتہ زکوٰۃ کی رقم غریب طلبہ پر صرف ہونی چاہیے کیونکہ یہ لوگ فقر اور مسکینی جیسی صفات سے متصف ہیں جو مصارفِ زکوٰۃ کے اجزاء ہیں۔
اس طرح وہ مدرس جس کی تنخواہ کے باوجود گزر اوقات مشکل ہو، کسب کا کوئی اور ذریعہ نہیں۔ فاقہ غالب ہے۔ مال زکوٰۃ سے اس کی بھی اعانت ہو سکتی ہے۔ لیکن اس حیثیت سے نہیں کہ یہ مدرس ہے بلکہ اس بناء پر کہ یہ محتاج حقدار ہے۔ اسی طرح قربانی کی کھالوں کا استحقاق بھی فقراء و مساکین کا ہے۔ حدیث میں ہے۔ آپﷺ نے اسے فروخت کرنے سے منع فرمایا اور صدقہ کا حکم دیا ہے۔
ظاہر ہے صدقہ اس پر ہو گا جو اس کا حقدار ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب