السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
محترمی و مکرمی جناب مفتی ثناء اللہ مدنی صاحب! السلام علیکم ورحمۃ اللہ ! ہماری برادری کی ایک ویلفیئر کمیٹی ہے، جس کے ارکان ، صاحب ِ حیثیت افراد سے زکوٰۃ کی رقم وصول کرکے برادری کے مستحق افراد تک پہنچاتے ہیں ۔ خرچ کی ترتیب درج ذیل ہے۔
(۱) ماہانہ وظائف۔ (۲) تعلیمی اخراجات۔ کتب، اسکول فیس وغیرہ۔ (۳) علاج معالجہ ( ۳) شادی وغیرہ
وصول کردہ زکوٰۃ پورا سال تواتر سے خرچ کرتے رہتے ہیں۔ سال گزر جانے کے بعد زکوٰۃ کی جو رقم بچ جاتی ہے اسی میں دوسرے سال کی زکوٰۃ جمع کردیتے ہیں تاکہ اگر دوسرے سال کی زکوٰۃ کی رقم کم جمع ہو تو پہلے سال والی زکوٰۃ کی رقم مل کر پورا سال وظائف جاری رہ سکیں۔ مجھے مسئلہ یہ پوچھنا ہے کہ زکوٰۃ کی رقم کب تک رکھ سکتے ہیں۔ جس سال کی زکوٰۃ ہو کیا اسی سال خرچ کرنا ضروری ہے ؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دے کر عنداللہ ماجور ہوں۔ (محمداسماعیل مپارہ) (۱۸ مئی ۲۰۰۱ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صورتِ مسئولہ میں حاجت سے زائد زکوٰۃ کی رقم سال پورا ہو جانے کے بعد بھی پڑی رہے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ اس میں صاحب ِ زکوٰۃ کی انفرادی ملکیت کا تصور نہیں رہتا ، بلکہ جملہ احباب کی طرف سے ادا شدہ ہے جو واپس نہیں ہوتی۔ تاہم بہتر یہ ہے کہ موجودہ کیفیت کو بیت المال کی شکل دی جائے، جس میں تمام قسم کے صدقات و خیرات جمع ہوں، پھر حسب ِ ضرورت ان کو مستحقین میں بانٹ دیا جائے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب