السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک دوکاندار سال کے بعد صرف اپنی رقم سے زکوٰۃ نکالے یا سارے مالِ تجارت کی؟ وضاحت فرمائیں۔ (محمد ابراہیم نجیب۔ فیصل آباد)(۲۹۔اگست ۱۹۹۷ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سال بعد مال کی تجارت سے زکوٰۃ دی جائے۔ چنانچہ سنن ابو داؤد میں حدیث ہے۔
حضرت سمرہ بن جندب فرماتے ہیں کہ ہمیں رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہم ہر اس مال سے زکوٰۃ نکالیں۔ جسے ہم فروختنی مال شمار کرتے تھے۔(سنن أبی داؤد،بَابُ الْعُرُوضِ إِذَا کَانَتْ لِلتِّجَارَۃِ، ہَلْ فِیہَا مِنْ زَکَاۃٍ، رقم: ۱۵۶۲ ، اسنادہ حسن)
اور قرآن مجید میں ہے:
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَنفِقوا مِن طَيِّبـٰتِ ما كَسَبتُم...﴿٢٦٧﴾... سورة البقرة
’’مومنو! جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کماتے ہو اور جو چیزیں ہم تمھارے لیے زمین سے نکالتے ہیں۔ ان میں سے (فی سبیل اﷲ) خرچ کرو۔‘‘
اس میں دستکاری، بیع شراء وغیرہ داخل ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب