السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایسا کاروبار جس میں رقم جمع نہیں ہوتی۔ رقم آتی ہے خرچ ہو جاتی ہے ، مثلاً تاجر ایک چیز دس ہزار کی لے کر گیارہ ہزار کی بیچ دیتا ہے پھر اور چیز لے آتا ہے سال کے بعد زکوٰۃ کا حساب کیسے کیا جائے گا؟ کپڑے کی دکان یر کریانے کی دکان کا حساب سال کے بعد اندازے سے کیا جائے گا،یا تھانوں کی گنتی اور سامان کاوزن کرکے؟ (ظفر اقبال ، گوجرانوالہ) (۳۱ جنوری ۲۰۰۳ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جو چیز سال بھر جمع نہ رہے خرچ ہو جائے اس میں زکاۃ نہیں۔ نیز جو اشیاء دکان میں موجود ہیںسال گزرنے پر ان کی مالیت کا حساب لگا کر زکوٰۃ ادا کرنا ہوگی۔ ’’سنن ابی داؤد‘‘ میں بسند حسن حضرت سمرۃ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
’ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ کَانَ یَأْمُرُنَا أَنْ نُخْرِجَ الصَّدَقَةَ مِنَ الَّذِی نُعِدُّ لِلْبَیْعِ۔‘(سنن أبی داؤد،بَابُ الْعُرُوضِ إِذَا کَانَتْ لِلتِّجَارَةِ، هَلْ فِیهَا مِنْ زَکَاةٍ، رقم: ۱۵۶۲ ، اسناده حسن)
’’رسول اللہﷺ نے ہمیں حکم فرمایا کہ تجارتی مال سے ہم زکوٰۃ ادا کریں۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب