السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
زیورات کی زکوٰۃ کے بارے میں صحیح اور ارجح مذہب کیا ہے ؟ مدلل جواب دیں۔(نورزماں۔بنوں) (۱۹ جنوری ۱۹۹۶ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
زیور کی زکوٰۃ کے بارے میں اہل علم کا سخت اختلاف ہے۔ سلف کی ایک جماعت عدمِ وجوب کی قائل ہے جب کہ دوسری جماعت کے نزدیک زکوٰۃ واجب ہے۔ جانبین کے استدلالات کا تعلق بعض احادیث، آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم قیاس اور لغوی وضع سے ہے۔
ان کے دلائل کا تفصیلی جائزہ شیخنا محمد الامین الشنقیطی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر’’اضواء البیان‘‘ میں خوب پیش کیا ہے جو لائق مطالعہ ہے۔(ج:۲،ص:۲۹۸ تا ۴۰۸)
بحث کے اختتام پر رقمطراز ہیں:
’ وَ إِخْرَاجُ زَکَاةِ الْحُلِیِّ أَحْوَطُ : لِأَنَّ مَنِ اتَّقَی الشُّبُهَاتِ فَقَدِ اسْتَبْرَأَ لِدِینِهِ وَعِرْضِهِ۔ دَعْ مَا یَرِیبُكَ إِلَی مَا لَا یَرِیبُكَ ، وَالْعِلْمُ عِنْدَ اللَّهِ تَعَالَی۔‘
’’یعنی زیادہ احتیاط والا مسلک یہ ہے کہ زیور کی زکوٰۃ ادا کی جائے کیونکہ جو شبہات سے بچا اس نے اپنا دین اور عزت و آبرو کو محفوظ کرلیا۔ مشتبہ امر کو چھوڑ کر غیر مشتبہ کو اختیار کر۔‘‘
اور ہمارے مربی اوّل محدث روپڑی رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیںـ:
’’ زکوٰۃِ زیور کے متعلق چند احادیث آئی ہیں۔ لیکن ان میں کچھ کلام ہے۔ اس لیے زیور میں زکوٰۃ فرض نہیں کہی جا سکتی۔ البتہ احتیاط دینے میں ہے تاکہ شک و شبہ نہ رہے۔ ہاں جو زیور اکثر رکھا جاتا ہے اور شاذ و نادر پہنا جاتا ہے تو ایسے زیور کی زکوٰۃ ضرور دینی چاہیے کیونکہ وہ خزانہ کا حکم رکھتا ہے۔ ایسے پہننے کا اعتبار نہیں۔ اگر اکثر پہنا جاتا ہے یا پہننا یا نہ پہننا دونوں کا قریباً برابر وقت ہے۔ تو یہ پہننے میں شامل ہو سکتا ہے۔‘‘ (فتاویٰ اہل حدیث،ج:۲،ص: ۵۲۷)
میری تحقیق بھی یہی ہے کہ زیورات کی زکوٰۃ ادا کرنی چاہیے۔ احتیاطی مسلک یہی ہے ۔ ہاں البتہ زیادہ تر مستعمل کی زکوٰۃ اگر نہ بھی ادا کی جائے تو گنجائش ہے۔
قرآن مجید میں ہے:
﴿أَوَمَن يُنَشَّؤُا۟ فِى الحِليَةِ وَهُوَ فِى الخِصامِ غَيرُ مُبينٍ ﴿١٨﴾... سورة الزخرف
’’کیا جو زیور میں پرورش پائے اور جھگڑے کے وقت بات نہ کر سکے۔(اللہ کی بیٹی ہو سکتی ہے؟)
آیت ہذا سے وجہ استدلال یہ ہے کہ جو زیور عورت کا لازمی لاحقہ بن جاتا ہے وہ بمنزلہ لباس کے قرار پاتا ہے جس طرح لباس میں زکوٰۃ نہیں اسی طرح مستعمل زیور میں بھی نہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب