سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(266) مساجد میں چھوٹے بچوں کا قرآن کی تعلیم حاصل کرنا

  • 2546
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 2989

سوال

(266) مساجد میں چھوٹے بچوں کا قرآن کی تعلیم حاصل کرنا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مساجد میں چھوٹے چھوٹے لڑکوں کا قرآن کی تعلیم پانا جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز ہے تو کیا متولی کو اس تعلیم کے بند کرنے کا شرعاً اخیتار حاصل ہے؟


 

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مساجد میں چھوٹے لڑکوں کا آنا اور قرآن کی تعلیم پانا جائز ہے۔ صحیح بخاری میں مروی ہے۔ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم امامہ بنت زینب کو گود میں لے کر نماز پڑھا کرتے تھے، اس حدیث کے تحت میں نیل الاوطار جلد ۲ صفحہ۷ میں مذکور ہے۔  ومن فوائد الحدیث جواز ادخال الصبیان المساجد اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بچوں کا مسجدوں میں داخل کرنا جائز ہے، ایسے ہی امام حسن رضی اللہ عنہ و حسین رضی اللہ عنہ کا بچپن کی حالت میں مسجد میں آنا، امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کی روایت میں مذکور ہے۔ اور ایک صحیح… حدیث میں وارد ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں بچے کا رونا سن کر نماز کو ہلکا کر دیتا ہوں، ایسا نہ ہو کہ اُس کی ماں پراگندہ وپریشان ہو جاوے۔ اس سے بھی بچوں کا مسجد میں آنا ثا بت ہوا، اور جو کام جائز ہے اُس کے روکنے کا متولی کو کوئی مجاز نہیں، ہاں اس امر کی ضرور نگرانی و احتیاط چاہیے، کہ لڑکوں کی وجہ سے مسجد کی پاکی و صفائی میں کچھ فرق نہ آوے۔واللہ اعلم بالصواب۔  ھذا ما عندی
(خلیل الرحمن مدرس مدرسہ الحدیث و الفرقان)
(جواب ہذا صحیح ابو محمد عبد الوہاب الملتانی نزیل الدہلی، الجواب صحیح کتبہ محمد عبد اللہ ۱۹ شعبان ۱۳۲۸ھ)
(الجواب صحیح ابو الحسن سید محمد، الجواب صحیح عبد الستار حسن عمر پوری، الجواب صحیح عبد الجبار عمر پوری)
(سارے جوابات صحیح ہیں واللہ اعلم بالصواب، حررہ العبد الفقیر ابو الطیب محمد شمس الحق العظیم آبادی عفا اللہ عنہ)
(ہذا الجواب صحیح محمد عین الدین عفی عنہ مٹیا برجی، لقد اصاب من اجاب العائذ بالرحمن عبد المنان عفی عنہ وزیر آبادی)
(ہذا الجواب حق عبد الرحمن ولایتی مدرس مدرسہ میاں صاحب مرحوم دہلی)
(الجواب حق الحق احق ان یتبع فما ذا بعد الحقد الاضلال، مولانا حکم ابو تراب عبد الوہاب صاحب بقلم ابو االحیر غفرہ اللہ)
(الجواب صحیح سید محمد عبد السلام غفرلہ، الجواب حق صحیح واللہ اعلم، کتبہ عبد السلام المبارکفوری عفی عنہ ۲۳ ذیقعدہ ۱۳۲۸ھ)
(جواب المجیب حق ، عند عبد الحکیم الصادقفوری العظیم آبادی عفی عنہ ۲۴ ذیقعد ۱۳۲۸ھ ، الجواب صحیح محمد مجیب اللہ عفی عنہ)
مسئلہ تعلیم صبیان کا مسجد میں اس کے لیے دو بات سمجھ لینے کی ہے۔ اول یہ کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بچوں کا مسجد میں آنا جانا ثابت ہے یا نہیں، دوسرے یہ کہ تعلیم امر دینی ہے یا نہیں۔ پہلے امر کی نسبت فتویٰ مصححہ میں پورا ثبوت ہے۔ کہ سعیدین شہیدین امام حسن و حسین بحالت طفولیت برابر مسجد میں آتے جاتے تھے اور خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نواسی کو مسجد میں لاتے تھے، بلکہ اُس کو گود میں لے کر نماز فرض ادا کرتے جس سے دن کی طرح روشن ہے۔ کہ عہد نبوی میں بچے مسجد میں آتے جاتے تھے، دوسرے امر کی نسبت بخاری شریف میں ہے۔
«خیر کم من تعلم القرآن وعلمه»
’’یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگوں میں بہتر وہ ہے، جو قرآن مجید کو سیکھے اور سکھاوے۔‘‘
جس سے تعلیم کا امر دینی ہونا بخوبی ثابت ہو گیا اور ما سوا اس کے اور بہت سی حدیثیں ہیں، جن سے تعلیم کے فضائل معلوم ہوتے ہیں۔ جس کے امر دین ہونے میں کسی کو بھی کلام نہیں، اور ہر امر دین کا جو اس قسم سے ہوں مسجد میں ہونا جائز و مشروع ہے اور مسجد مسئول عنہ میں تعلیم صبیان سے یہی تعلیم قرآن مراد ہے پس اُس کا مسجد میں ہونا سراسر موافق شریعت ہے۔
البتہ اس صورت میں لڑکوں کا بہت خیال کرنا ہو گا کہ مسجد کی صفائی ستھرائی اور صفائی میں فرق نہ ہو کیوں کہ اسی امر عارضی کی وجہ سے بعض علماء منع کرتے ہیں، مگر جب یہ عارضی امر اٹھا دیا جائے اور مسجد کی لطافت و صفائی کا پورا نتظام کیا جائے تو نفس تعلیم اُن علماء کے نزدیک بھی جائز ہو گی۔ حدیث شریف میں وارد ہے۔
«انما بنیت المساجد لما بنیت له»
’’یعنی مسجد جس کام کے لیے بنائی گئی وہی کام اُس میں ہونا چاہیے۔‘‘
 اس کے تحت امام نوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
معناہ لذکر اللّٰہ والصلٰوۃ والعلم والمذاکرۃ فی الخیر ونحوھا
’’یعنی اس حدیث کا یہ مطلب ہے کہ اس میں اللہ جل شانہ کا ذکر اور نماز اور تعلیم علم اور وعظ و نصیحت و مناظرہ و مباحثہ ہو۔‘‘
ا س سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مساجد میں تعلیم صبیان جائز ہے۔ مگر معلم کو بہت احتیاط کرنی ہوگی، کہ مسجد پاک و صاف رہے، اور بچے لہو لعب و شورو غل نہ کریں، کیوں کہ اسی لہو ولعب کے خیال سے حضور علیہ السلام نے یہ فرمایا ہے:
«جنبوا مساجد کم صبیانکم»
’’یعنی مسجدوں کو بچوں سے بچاؤ۔‘‘
اس کے تحت حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ جلد نمبر ۷ کے صفحہ ۹۸ میں فرماتے ہیں
لأنھم یلعبون فیه ولا یناسبھم
’’یعنی کیوں کہ وہ بچے کھیل کود مچاتے ہیں۔‘‘
اور یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسجد میں بچوں کے کھیل کود پر درہ سے مارتے تھے، اُسی ابن کثیر کے صفحہ مذکورہ میں ہے،
وقد کان عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ إذا رای صبیانا یلعبون فی المسجد یضربھم باالمخفقة
لہٰذا بچوں کے اس کھیل کود پر معلم کو بھی چاہیے کہ چھڑی سے خبر لے اور کھیل کود سے رکوے۔ الغرض امور عارضیہ سے نفس تعلیم کو کوئی ضرر نہیں،  وھذا ھو الحق والحق أحق أن یتبع والسلام علی من اتبع الھدیٰ
( حررہ الراجی رحمۃ ربہ القوی ابو النعمان الاعظمی الموی صانہا للہ عن کل غبی و غوی )
( الجواب صحیح العبد محمد سلیمان عفی عنہ )
واضح ہو کہ مسجد میں لڑکوں کا عہد نبوی میں آنا اور حضرت حسان رضی اللہ عنہ شاعر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شعر پڑھنا اور کافر کا مسجد میں باندھنا اور اہل حبش کا مسجد میں ان چیزوں کا کھیلنا جو مقابلہ کفار کار آمد ہوں ثابت ہے، اور نیز خواب کی تعبیر کرنا اور اُس کا بیان کرنا مسجد میں ثابت ہے، جیسا کہ کتب احادیث اس سے مالا مال ہیں، پس جب ان چیزوں کا جو بالذات ذکر اللہ میں داخل نہیں ہیں جواب ثابت ہے تو تعلیم قرآن و حدیث جو عین ذکر اللہ اور افضل عبادات سے ہے بدرجہ اولیٰ جائز ہو گا، علاوہ اس کے خود دربارہ مسجد یہ وارد ہے، کہ مسجد ذکر اللہ کے لیے ہے۔ نابالغ کو جیسا کہ تعلیم صلوٰۃ کا حکم ہے ویسا ہی احکام شرعی تعلیم کا حکم ہے، خواہ مسجد کے اندر ہو یا باہر۔ رہا مسجد میں شوروغل سو یہ البتہ منع ہے، خواہ نابالغ کریں یا بالغ اس سے نفس تعلیم کا عدم جواز ہر گز نہیں ہو سکتا۔ باقی رہا مسلمانوں کو مشورہ سے کام لینا یہ عہد نبوی اور عہد خلفاء اربعہ میں اہل اسلام کا شعار تسلیم کیا گیا ہے۔ اور درحقیقت بغیر اس کے اسلام کا کام چلنا محال ہے۔ کما لا یحفی ۔ واللہ اعلم بالصواب
(کتبہ احمد عفی عنہ)
نابالغ لڑکوں کے مسجد میں داخل ہونے کے جواز میں بہت سے دلائل واضح ہیں، منجملہ ان کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ
«مروا أولادکم بالصلٰاة إذا بلغوا سبعاً» (الحدیث)
’’یعنی آپ نے فرمایا کہ اپنی اولاد کو سات برس کی عمر میں نماز پڑھنے کی تاکید کرو۔‘‘
نماز کی تاکید جب ہی ہو گی، جب ان کو نماز سکھائی جائے گی اور مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا بھی امور تعلیمیہ نماز میں سے ہے۔ یعنی جب ان کو نماز کی تعلیم و تاکید کی جائے گی۔ تو لامحالہ مسجد کا لزوم اور جماعت کی پابندی کے بھی ضرور تاکید ہو گئی، ورنہ بغیر اس کے نماز کی تعلیم میں نقص ہوگا۔ پس اس صورت میں چھوٹے بچوں کا مسجد میں آنا ایک ضروری اور لا ابدی امر ہوا۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک لڑکا صغیر سن جس کی عمر آٹھ سال کی تھی، وہ اپنی ایک قوم کی مسجد میں امامت کرتا تھا، جیسا کہ ابو داؤد جلد نمبر ۱ صفحہ ۸۶ مطبوعہ نامی کانپور میں ہے۔ اب اس سے زیادہ اور کیا ثبوت لڑکوں کے مسجد میں آنے اور داخل ہونے کا ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب والیہ المرجع والماب۔
(کتبہ العاجز ابو تراب محمد عبد الرحمن الہ آبادی)

قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 02

محدث فتویٰ

تبصرے