سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(265) مسلمانوں کے خلاف کفار کی معاونت

  • 2545
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-19
  • مشاہدات : 2630

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مسلمانوں کے خلاف کفار کی معاونت کرنے والے کا شرعی حکم کیا ہے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ مسلمانوں کے خلاف کفار کی مدد کرنا ہر گز جائز نہيں ہے اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اس کا یہ عمل کفر اور ارتداد پر مبنی ہے۔

کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے :

’’ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ ‘‘ (الآية المائدة / 51)

’’ اے ایمان والو تم یہود ونصاری کو دوست نہ بناؤ یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں ، تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے وہ بے شک انہيں میں سے ہے ، ظالموں کو اللہ تعالی ہرگز راہ راست نہيں دکھاتا ۔‘‘

فقہاء اسلام جن میں آئمہ حنفیہ ، مالکیہ ، شافعیہ ، اورحنابلہ اور ان کے علاوہ باقی سب شامل ہیں نے بالنص یہ بات کہی ہے کہ کفار کو ايسی چيز بیچنا حرام ہے جس سے وہ مسلمانوں کے خلاف طاقت حاصل کریں چاہے وہ اسلحہ ہو یا کوئي جانور اورآلات وغیرہ ۔ لہذا انہيں غلہ دینا اورانہيں کھانا یا پینے کے لیے پانی وغیرہ یا کوئي دوسرا پانی اورخیمے اورگاڑیاں اور ٹرک فروخت کرنا جائز نہيں ، اورنہ ہی ان کی نقل وحمل کرنا ، اوراسی طرح ان کےنقل وحمل اورمرمت وغیرہ کے ٹھیکے حاصل کرنا بھی جائز نہيں بلکہ یہ سب کچھ حرام میں بھی حرام ہے ، اور اس کا کھانے والا حرام کھا رہا ہے اورحرام کھانے والے کے لیے آگ یعنی جہنم زيادہ بہتر ہے ۔ گویا انہیں کوئي ادنیٰ سی بھی ایسی چيز دینی جائز نہيں جس سے وہ مسلمانوں کے خلاف مدد حاصل کرسکتے ہوں ۔

امام نووی رحمہ اللہ تعالی اپنی کتاب " المجموع " میں کہتے ہیں :

’’ وَأَمَّا بَيْعُ السِّلاحِ لأَهْلِ الْحَرْبِ فَحَرَامٌ بِالإِجْمَاعِ ..اهـ . ‘‘

اہل حرب یعنی ( لڑائي کرنے والے کافروں ) کو اسلحہ بیچنا بالاجماع حرام ہے ۔ اھـ

اورحافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب " اعلام الموقعین میں کہا ہے :

امام احمد رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

’’ قَالَ الإِمَامُ أَحْمَدُ : نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَنْ بَيْعِ السِّلاحِ فِي الْفِتْنَةِ . . . وَمِنْ الْمَعْلُومِ أَنَّ هَذَا الْبَيْعَ يَتَضَمَّنُ الإِعَانَةَ عَلَى الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ , وَفِي مَعْنَى هَذَا كُلُّ بَيْعٍ أَوْ إجَارَةٍ أَوْ مُعَاوَضَةٍ تُعِينُ عَلَى مَعْصِيَةِ اللَّهِ كَبَيْعِ السِّلاحِ لِلْكُفَّارِ وَالْبُغَاةِ وَقُطَّاعِ الطَّرِيقِ . . . أَوْ إجَارَةُ دَارِهِ لِمَنْ يُقِيمُ فِيهَا سُوقَ الْمَعْصِيَةِ , وَبَيْعِ الشَّمْعِ أَوْ إجَارَتِهِ لِمَنْ يَعْصِي اللَّهَ عَلَيْهِ , وَنَحْوِ ذَلِكَ مِمَّا هُوَ إعَانَةٌ عَلَى مَا يُبْغِضُهُ اللَّهُ وَيُسْخِطُهُ اهـ‘‘

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنہ میں اسلحہ فروخت کرنے کے لیے منع کیا ہے ۔۔۔۔ اوریہ تومعلوم ہی ہے کہ اس طرح کی فروخت میں گناہ اوردشمنی میں معاونت پائي جاتی ہے ، اوراسی معنی میں ہر وہ خریدوفروخت یا اجرت اورمعاوضہ جو اللہ تعالی کی معصیت ونافرمانی میں معاونت کرے وہ بھی حرام ہے مثلاً کفار یا ڈاکوؤں کو اسحلہ فروخت کرنا یا کسی ایسے شخص کو مکان کرائے پر دینا جو وہاں معصیت ونافرمانی کا بازار گرم کرے ۔ 

اوراسی طرح کسی ایسے شخص کو شمع فروخت کرنا یا کرائے پردینا جواس کے ساتھ اللہ تعالی کی نافرمانی ومعصیت کرے یا اسی طرح کوئي اورکام جواللہ تعالی کے غيظ وغضب دلانے والے کام میں معاون ثابت ہو ۔اھـ

اورموسوعہ فقہیہ25/153 میں مکتوب ہے کہ :

’’ يَحْرُمُ بَيْعُ السِّلاحِ لأَهْلِ الْحَرْبِ وَلِمَنْ يَعْلَمُ أَنَّهُ يُرِيدُ قَطْعَ الطَّرِيقِ عَلَى الْمُسْلِمِينَ أَوْ إثَارَةَ الْفِتْنَةِ بَيْنَهُمْ , وَقَالَ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ : لا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَحْمِلَ إلَى عَدُوِّ الْمُسْلِمِينَ سِلَاحًا يُقَوِّيهِمْ بِهِ عَلَى الْمُسْلِمِينَ , وَلا كُرَاعًا , وَلا مَا يُسْتَعَانُ بِهِ عَلَى السِّلاحِ وَالْكُرَاعِ (الكراع هي الخيل) ; لأَنَّ فِي بَيْعِ السِّلاحِ لأَهْلِ الْحَرْبِ تَقْوِيَةً لَهُمْ عَلَى قِتَالِ الْمُسْلِمِينَ , وَبَاعِثًا لَهُمْ عَلَى شَنِّ الْحُرُوبِ وَمُوَاصَلَةِ الْقِتَالِ , لاسْتِعَانَتِهِمْ بِهِ وَذَلِكَ يَقْتَضِي الْمَنْعَ اهـ . ‘‘

اہل حرب اورایسے شخص جس کے بارہ میں معلوم ہو کہ وہ ڈاکو ہے اورمسلمانوں کولوٹے گا یا پھر مسلمانوں کے مابین فتنہ پھیلائے گا اسے اسلحہ بیچنا حرام ہے ۔ حسن بصری رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں : کسی بھی مسلمان کےلیے حلال نہيں کہ وہ مسلمانوں کے دشمن کے پاس اسلحہ لیجائے اورانہیں مسلمانوں کے مقابلہ میں اسلحہ کے ساتھ تقویت دے ، اورنہ ہی انہیں گھوڑے ، خچر اور گدھے دینا حلال ہیں ، اورنہ کوئي ایسی چيز جواسلحہ اورگھوڑے ، خچر اورگدھوں کے لیے ممد ومعاون ہو ۔ اس لیے کہ اہل حرب کو اسلحہ بيچنا انہیں مسلمانوں سے لڑائی کرنے میں تقویت پہنچانا ہے ، اوراس میں ان کے لیے لڑائی جاری رکھنے اوراسے تیز کرنے میں بھی تقویت ملتی ہے ، کیونکہ وہ ان اشیاء سے مدد حاصل کرتے ہیں جس کی بنا پر یہ ممانعت کی متقاضی ہے ۔ اھـ

یہ مسئلہ کوئی عادی اورعام یا پھر چھوٹا ساگناہ و معصیت نہيں بلکہ یہ مسئلہ توعقیدہ توحید اورمسلمان کی اللہ تعالی کے دین سے محبت اوراللہ کے دشمنوں سے برات و لاتعلقی سے تعلق رکھتا ہے ، آئمہ کرام نے اپنی کتب میں اس کے بارہ میں اسی طرح لکھا ہے ۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی نے اپنے فتوی میں کہا ہے :

"وقد أجمع علماء الإسلام على أن من ظاهر الكفار على المسلمين وساعدهم بأي نوع من المساعدة فهو كافر مثلهم ، كما قال الله سبحانه ( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ) المائدة / 51 "

علماء اسلام کا اس پراجماع ہے کہ جس نے بھی مسلمانوں کے مقابلہ میں کفار کی مدد ومعاونت کی اورکسی بھی طریقہ سے ان کی مدد کی وہ بھی ان کی طرح ہے کافر ہے ۔ جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے : 

’’ اے ایمان والو تم یھود ونصاری کو دوست نہ بناؤ یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں ، تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے وہ بے شک انہيں میں سے ہے ، ظالموں کو اللہ تعالی ہرگز راہ راست نہيں دکھاتا ‘‘ (المائدۃ:51 ) (فتاوی ابن باز رحمہ اللہ ( 1 / 274 )

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 02

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ