السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا وٹہ سٹہ کی شادی جائز ہے۔؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!اسلام نے وٹہ سٹہ کی شادی کو نا جائز اور حرام قرار دیا ہے، سیدنا عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
نکاح شغار یہ ہوتا ہے کہ کوئی شخص اپنی بیٹی یا بہن وغیرہ کے نکاح کے ساتھ دوسرے شخص کی بیٹی ،بہن یا کسی بھی عورت سے نکاح کی شرط لگائے،خواہ حق مہر مقرر ہو یا نہ ہو۔ اور " المدونۃ " ميں درج ہے:
اور اس كى دليل ابو داؤد وغيرہ كى درج ذيل حديث بھى ہے جو عبد الرحمن بن ھرمز سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ: عباس بن عبد اللہ بن عباس سے عبد الرحمن بن حكم نے اپنى بيٹى كى شادى كى، اور انہوں نے عبد الرحمن بن حكم سے اپنى بيٹى كى شادى كر دى، اور دونوں نے مہر بھى ركھا، تو معاويہ بن ابى سفيان رضى اللہ تعالى عنہما نے مروان بن حكم كو خط لكھا جس ميں انہوں نے ان دونوں كے درميان عليحدگى اور جدائى كا حكم ديا، اور اپنے خط ميں لكھا:
اور بعض اہل علم نے نكاح شغار كو فاسد نكاح شمار كيا ہے اس كا جارى ركھنا جائز نہيں. مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:
ليكن اگر اس شخص نے دوسرے شخص كى ولايت ميں موجود عورت كو نكاح كا پيغام ديا اور اس دوسرے شخص نے پہلے كى ولايت ميں موجود عورت كونكاح كا پيغام بغير كسى شرط كے ديا اور دونوں عورتوں كى رضامندى اور نكاح كى باقى شروط اور اركان كے ساتھ نكاح ہو گيا تو اس ميں كوئى اختلاف نہيں، اور اس وقت يہ نكاح شغار نہيں ہو گا " انتہىٰ اس سے يہ واضح ہوا كہ آپ نے ايک عظيم شرعى ممنوعہ كام كا ارتكاب كيا ہے، چہ جائيكہ يہ معاشرتى اور نفسياتى طور پر بھى عظيم اور بڑا ممنوعہ كام ہے. اس ليے آپ كو يہى نصيحت ہے كہ آپ اس شادى كى تكميل سے اجتناب كريں، اور آپ كسى بھى بناوٹى عذر كو قبول مت كريں، بلكہ آپ اپنے بہنوئى پر واضح كر ديں كہ دونوں عقدوں كى اكھٹى شرط ركھنا حرام ہے، اور اس طرح دونوں عقد نكاح ہى فاسد ہو جائيں گے، اسے اپنى بيوى كو اپنے پاس ہى ركھنا چاہيے ليكن اسى وقت اس كو يہ بھى چاہيے كہ وہ نكاح دوبارہ كرے، كيونكہ وٹہ سٹہ كى بنا پر نكاح فاسد تھا. اور اگر وہ ايسا كرنے سے انكار كر دے اور اسے چھوڑنے پر اصرار كرتا ہے تو اللہ سبحانہ و تعالىٰ كا فرمان ہے:
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائلجلد 02 |