السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک نابالغ یتیم بچے کی ایک معقول رقم بینک میں ہے۔ اس رقم میں سے زکوٰۃ کی ادائیگی واجب ہے یا نہیں یعنی اس رقم میں زکوٰۃ ہو گی یا نہیں؟ بَیِّنُوْا تُوجرُوْا۔(ایک سائل)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یتیم کے مال میں زکوٰۃ کے بارے میں اہل علم کے مشہور تین اقوال ہیں۔
جمہور علماء وجوبِ زکوٰۃ کے قائل ہیں جب کہ معدودے(چند) نفی کے قائل ہیں۔
اور بعض کے ہاں صرف زرعی پیدوار میں عشر واجب ہے اس کے علاوہ کوئی شے واجب نہیں۔
چند عمومی اور بعض خصوصی دلائل پہلے موقف کے مؤید ہیں، چنانچہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی مشہور صحیح حدیث میں ہے:
’ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِیَائِهِمْ فَتُرَدُّ عَلَی فُقَرَائِهِمْ۔‘ (مختصر المنذری لسنن ابی داؤد۳۰۰/۲) صحیح البخاری،بَابُ أَخْذِ الصَّدَقَةِ مِنَ الأَغْنِیَاءِ وَتُرَدَّ فِی الفُقَرَاء ِ حَیْثُ کَانُوا، رقم:۱۴۹۶،صحیح مسلم، باب الدعاء إلی الشهادتین وشرائع الإسلام،رقم:۱۹،سنن ابن ماجه، بَابُ فَرْضِ الزَّکَاةِ، رقم: ۱۷۸۳، سنن أبی داؤد،بَابٌ فِی زَکَاةِ السَّائِمَةِ،رقم:۱۵۸۴)
یعنی ’’زکوٰۃ مالداروں سے لے کر محتاجوں میں تقسیم کی جائے۔‘‘
حدیث ِ ہذا میں لفظ اغنیاء غنی کی جمع ہے۔ لفظ غنی اپنے عموم کے اعتبار سے یتیم کو بھی شامل ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ یتیم کے مال میں زکوٰۃ واجب ہے۔ علاوہ ازیں زکوٰۃ کا تعلق من وجہ عین مال سے بھی ہے جو وجوب کی دلیل ہے۔
نیز کچھ مخصوص احادیث بھی پہلے قول کی مؤید ہیں۔ مثلاً ایک روایت میں ہے:
’ أَلاَ مَنْ وَلِیَ یَتِیمًا لَهُ مَالٌ فَلْیَتَّجِرْ فِیهِ، وَلاَ یَتْرُکْهُ حَتَّی تَأْکُلَهُ الصَّدَقَةُ.۔‘ (سنن الترمذی،بَابُ مَا جَاء َ فِی زَکَاةِ مَالِ الیَتِیمِ،رقم:۶۴۱)
’’یعنی جو مالدار یتیم کا نگران ہو چاہیے کہ وہ اس کے مال کو تجارت میں لگائے رکھے۔ کہیںاسے زکوٰۃ ہی ختم نہ کر ڈالے۔‘‘
نیز طبرانی اوسط میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے:
’اتَّجِرُوا فِی أَمْوَالِ الْیَتَامَی، لَا تَأْکُلْهَا الزَّکَاةُ۔‘ (المعجم الاوسط،للطبرانی،رقم:۴۱۵۲)
’’یعنی یتیموں کے مال میں تجارت کرو کہیں اسے زکوٰۃ نہ کھا جائے۔‘‘
اگرچہ مصرح روایات اسانید کے اعتبار سے کچھ کمزور ہیں لیکن عموماتِ شریعت اور آثارِ صحابہ صحیحہ اور اقوال ائمہ عظام سے پہلے مسلک کو مزید تائید و تقویت حاصل ہوتی ہے۔
اس لیے راجح بات یہی ہے کہ یتیم کی جمع شدہ رقم میں زکوٰۃ واجب ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: تحفۃ الاحوذی(۲۹۶/۲ تا ۳۰۰، طبع مصری)
یاد رہے اس بارے میں چند سال قبل ’’تنظیم اہل حدیث‘‘ لاہور میں میرا ایک تفصیلی فتویٰ بھی شائع ہو چکا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب