سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(317) کاروبار پر زکوٰۃ، اور جو قرض لینا ہے اس پر زکوٰۃ کا حکم

  • 25432
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-04
  • مشاہدات : 1956

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک آدمی جب وہ دکان کا کام شروع کرتا ہے تو اس وقت اصل رقم مبلغ ستتر(۷۷) ہزار روپے ہے۔ کچھ عرصہ کام چلتا رہا تو اصل رقم اس نے نکال لی اب لوگوں کی رقم سے کاروبار چل رہا ہے۔ اس صورت میں اب دکان میں ستتر(۷۷۰۰۰) ہزار کا مال ماجود ہے جب کہ اس نے جو سامان بطورِ قرض لوگوں کو دیا ہے اور لوگوں سے لینا بھی ہے وہ مبلغ ۶۷۰۰۰ ہزار ہے اور قرض بذمہ دکان مبلغ ایک لاکھ چھہتر ہزار (۱۷۶۰۰۰) روپے ہے تو اس صورت میں کتنی رقم کی زکوٰۃادا کرے گا ۔ قرآن و سنت کے ساتھ اس کا حل بتائیں کہ زکوٰۃ کتنی بنتی ہے۔ (محمد حسن احسن) (۱۶ مارچ ۲۰۰۱ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سال گزرنے پر دکان کی طرف منسوب سارے مال کا حساب لگا کر اڑھائی روپے فیصد کے حساب سے زکوٰۃ ادا کی جائے۔ ’’سنن ابی داؤد‘‘ میں حضرت سمرۃ بن جندب سے روایت ہے ،فرمایا:

’ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ کَانَ یَأْمُرُنَا أَنْ نُخْرِجَ الصَّدَقَةَ مِنَ الَّذِی نُعِدُّ لِلْبَیْعِ۔‘ (سنن أبی داؤد،بَابُ الْعُرُوضِ إِذَا کَانَتْ لِلتِّجَارَةِ،هَلْ فِیهَا مِنْ زَکَاةٍ، رقم: ۱۵۶۲ ، اسنادہ حسن)

’’رسول اللہﷺ نے ہمیں حکم دیا جو مال خرید و فروخت کے لیے ہو اس کی زکوٰۃ ادا کریں ۔‘‘

اور جو قرض لینا ہے اگر اس کے بروقت ملنے کی امید ہو تو اس کی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی اور جس قرضہ کے ملنے کی امید نہ ہو اگر وہ کئی سالوں کے بعد مل جائے تو اس صورت میں صرف ایک سال کی زکوٰۃ ادا کرنا ہوگی۔ ( بحوالہ موطا امام مالک) اور دکان پر قرض کی صورت میں اگر اصحاب شرکاء کے ہاں وسعت ہے تو زکوٰۃ دینی پڑے گی ورنہ نہیں یہ بھی یاد رہے کہ مختلف اشخاص کی کسی شئے کا حکم مسئلہ زکاۃ میں ایک شخص کی شئے کا حکم ہے۔ چنانچہ بکریوں والی حدیث اس امر کی واضح دلیل ہے ، شرکاء میں سے ہر ایک کی بکریاں نصاب تک نہیں پہنچتیں مگر اکٹھی ہونے کی صورت میں تکمیل نصاب سے زکوٰۃ پڑ جاتی ہے۔ (موطأ مالک،بَابُ الْعَمَلِ فِی صَدَقَۃِ عَامَیْنِ إِذَا اجْتَمَعَا،رقم:۵۵، صحیح البخاری… ………)

شرکاء دکان کا معاملہ بھی اسی طرح ہے بقدر حصص سب پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الصوم:صفحہ:289

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ