سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(309) صدقہ فطر کو عید سے چند روز قبل تقسیم کرنا؟

  • 25424
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 568

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا یہ جائز ہے کہ صدقہ فطر شریعت کی طرف سے مقرر کردہ وقت سے پہلے ہفتہ وار چھٹی کے دن تقسیم کردیاجائے کیونکہ اس دن رضا کارانہ کام کرنے والے افراد زیادہ تعداد میں مل سکتے ہیں، جو کسی دوسرے وقت دستیاب نہیں ہوتے؟(مغربی مسلمانوں کے روزمرہ مسائل)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صدقہ فطر کا اصل مقصد یہ ہے کہ عید کے دن غریبوں کو مانگنے کی ضرورت نہ رہے، لہٰذا یہ صدقہ ان تک اس انداز سے پہنچنا چاہئے کہ یہ مقصد حاصل ہوجائے۔ اسے نمازِ عید سے موخر کرنا جائز نہیں کیونکہ نبیﷺ نے حکم دیا ہے کہ وہ نمازِ عید کے لئے نکلنے سے پہلے ضرور ادا کردیاجائے اور فرمایا:

’’جس نے اسے نماز سے پہلے ادا کیا تو یہ مقبول صدقہ ہے، اور جس نے نمازِ (عید) کے بعد ادا کیا، تووہ صدقوں میں سے ایک (عام) صدقہ ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ،بَابُ صَدَقَۃِ الْفِطْرِ، رقم: ۱۸۲۷،سنن أبی داؤد،بَابُ زَکَاۃِ الْفِطْرِ،رقم:۱۶۰۹)

اس کی ادائیگی نمازِ عید سے متصل پہلے یعنی فجر کی نماز اور عید کی نما زکے درمیان بھی ہوسکتی ہے بلکہ عید کی رات کو بھی ہوسکتی ہے۔ اسے عید سے ایک دو دن پہلے بھی ادا کیا جاسکتا ہے جیسے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور یہی عام فقہاء کی رائے ہے۔ بعض علماء کے قول کے مطابق آدھا مہینہ پہلے بلکہ مہینے (رمضان) کے شروع میں بھی درست ہے۔ میرے خیال میں اس امر کا تعلق صدقہ فطر کے شرعی مقصد سے ہے اور وہ مقصد ہے عیدکے دن حاجت مندوں کو مانگنے کی ضرورت نہ رہنے دینا۔ چونکہ عید سے پہلے ادا کرنے سے بھی یہ مقصد حاصل ہوجاتا ہے، اس لئے اس معاملے میں گنجائش ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الصوم:صفحہ:286

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ