السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
(۱) اعتکاف کم از کم اور زیادہ سے زیادہ کتنے دنوں تک ہو سکتا ہے؟
(۲) کیا اعتکاف کے لیے مسجد ضروری ہے ،ا گر ضروری ہے تو کیا جامع مسجد ہونا ضروری ہے؟
(۳) کیا عورت بھی اعتکاف بیٹھ سکتی ہے اگر بیٹھ سکتی ہے تو گھر میں یا مسجد میں؟
(۴) اگر ایام ماہواری آجائیں تو پھراعتکاف کا کیا حکم ہے؟
(۵) اعتکاف رمضان کے سوا عام دنوں میں بھی ہو سکتا ہے؟
(۶) معتکف کے لیے شرائط کیا ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(۱) شریعت مطہرہ میں اعتکاف کے لیے وقت کی کوئی پابندی نہیں۔ البتہ رسولِ کریمﷺ کی اقتداء میں مستحب یہ ہے کہ رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کیا جائے۔
امام عبدالرزاق نے یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ سے بسندہ بیان کیا ہے، وہ فرماے ہیں ، میں تھوڑے سے وقفہ کے لیے بہ نیت اعتکاف مسجد میں ٹھہر جاتا ہوں۔ (فتح الباری،ج:۴،ص:۲۷۳)
مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ ہو: (فقہ السنة،ج:۱،ص:۴۷۶،سید سابق)
(۲) ہاں اعتکاف کے لیے مسجد کا وجود ضروری ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’ وَالِاعْتِکَافُ لُغَةً لُزُومُ الشَّیْئِ وَحَبْسُ النَّفْسِ عَلَیْهِ وَشَرْعًا الْمَقَامُ فِی الْمَسْجِدِ مِنْ شَخْصٍ مَخْصُوصٍ عَلَی صِفَةٍ مَخْصُوصَةٍ ۔‘ (فتح الباری،ج:۴،ص:۲۷۱)
’’یعنی اعتکاف کا لغوی معنی کسی شئے کو لازم پکڑنا اور نفس کو اس پر بند رکھنا اور شرع میں مخصوص شخص کا مخصوص صفت کے ساتھ مسجد میں ٹھہرنے کا نام ہے۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ اعتکاف کی تعریف میں مسجد کا وجود مضمر ہے اور قرآنِ مجید میں ہے:
﴿وَلا تُبـٰشِروهُنَّ وَأَنتُم عـٰكِفونَ فِى المَسـٰجِدِ...﴿١٨٧﴾... سورة البقرة
’’جب تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھتے ہو تو عورتوں سے مباشرت مت کرو۔‘‘
وجہ استدلال یہ ہے کہ اعتکاف اگر مسجدوں کے علاوہ بھی جائز ہوتا تو مباشرت کی حرمت مسجدوں کے ساتھ مخصوص کرنے کی سرے سے ضروت ہی نہیں تھی۔ کیونکہ جماع بالاجماع اعتکاف کے منافی ہے۔(فتح الباری:۴،ص:۳۷۳)
تاہم اولیٰ یہ ہے کہا عتکاف جامع مسجد میں بیٹھا جائے تاکہ جمعہ کی ادائیگی کے لیے وہاںسے نکلنے کی نوبت پیش نہ آئے۔ علامہ مبارک پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’ هٰذا هُوَ الْمُخْتَارُ عِنْدِی وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ۔‘(تحفة الاحوذی،ج:۳،ص:۵۲۰، طبع مصری)
’’یعنی میرے نزدیک پسندیدہ بات یہی ہے۔‘‘
جب کہ امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک بلاتخصیص تمام مسجدوں میں اعتکاف بیٹھنا جائز ہے۔ چنانچہ انھوں نے اپنی ’’صحیح‘‘ میں بایں الفاظ تبویب قائم کی ہے:
’بَابُ الِاعْتِکَافِ فِی العَشْرِ الأَوَاخِرِ، وَالِاعْتِکَافِ فِی المَسَاجِدِ کُلِّهَا۔‘(فتح الباری، ج:۴،ص:۲۷۱)
وجہ استدلال یہ ہے کہ قرآنی لفظ ﴿فِی الْمَسٰجِدِ ﴾غیر مخصص بلا قید ہے۔ لہٰذا جملہ مساجد میں اعتکاف جائز ہے بنا بریں اگر کوئی شخص غیر جامع میں اعتکاف بیٹھ جائے تو اس کے لیے دوسری جگہ جمعہ پڑھنے کے لیے نکلنا جائز ہوگا۔ کیوں کہ جمعہ فرض ہے اور اعتکاف عام حالات میں غیر واجب ہے۔ واجب غیر واجب پر بہر صورتِ مقدم ہے۔
(۳) عورت اعتکاف بیٹھ سکتی ہے۔ چنانچہ’’صحیح بخاری‘‘میں حدیث ہے:
’عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، ذَکَرَ أَنْ یَعْتَکِفَ العَشْرَ الأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ فَاسْتَأْذَنَتْةُ عَائِشَةُ، فَأَذِنَ لَهَا۔‘ (صحیح البخاری،بَابُ مَنْ أَرَادَ أَنْ یَعْتَکِفَ، ثُمَّ بَدَا لَهُ أَنْ یَخْرُجَ،رقم:۲۰۴۵)
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، رسول اللہ ﷺ نے رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف بیٹھنے کا ذکر کیا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی اعتکاف بیٹھنے کی اجازت چاہی۔ آنحضرتﷺ نے اجازت مرحمت فرما دی۔‘‘
ہم نے اختصار کے پیش نظر باقی حصہ حذف کردیا ہے۔ اصلاً پورے قصے کا تعلق مسجد میں اعتکاف بیٹھنے سے ہے۔’’صحیح بخاری‘‘میں تفصیل ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ اسی واقعہ سے معلوم ہوا کہ عورت کے لیے بھی مقامِ اعتکاف صرف مسجد ہے گھر نہیں۔ نیز اعتکاف کی شرعی تعریف بھی اس پر دال ہے اور ظاہر واقعہ کی بنا پر بعض اہل علم نے عورت کے ساتھ شوہر کے اعتکاف کو ضروری قرار دیا ہے لیکن یہ نظریہ کمزور ہے اس لیے کہ ازواجِ مطہرات نے آپ کی وفات کے بعد بھی اعتکاف کیا ہے۔ حدیث میں ہے:
’ثُمَّ اعْتَکَفَ أَزْوَاجُهُ مِنْ بَعْدِهِ ‘ (بخاری مع فتح الباری،ج:۴،ص:۲۷۱) صحیح البخاری،بَابُ الِاعْتِکَافِ فِی العَشْرِ الأَوَاخِرِ، …الخ ،رقم:۲۰۲۶،صحیح مسلم،بَابُ اعْتِکَافِ الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ،رقم:۱۱۷۲،سنن ابی داؤد،بَابُ الِاعْتِکَافِ،رقم:۲۴۶۲)
جب کہ ازواج مطہرات کے بارے میں یہ بات مسلم ہے کہ ان کے لیے کسی بھی دوسرے شخص سے آپ کے بعد نکاح کرنا حرام تھا۔
قرآن میں ہے: ﴿وَ لَآ اَنْ تَنْکِحُوْٓا اَزْوَاجَهٗ مِنْم بَعْدِهٖٓ اَبَدًا﴾(الاحزاب:۵۳)
لامحالہ وہ اکیلی ہی اعتکاف بیٹھتی تھیں۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ مسجد میں اعتکاف کی صورت ہو۔ عورت کو مکمل تحفظ ہونا چاہیے اوراگر دورانِ اعتکاف عورت کو حیض شروع ہو جائے تو اعتکاف چھوڑ دے۔اس حالت میں نماز روزہ جیسے اہم ارکان ساقط ہو جاتے ہیں تو اعتکاف کا ساقط ہونا معمولی بات ہے۔
(۴) اعتکاف رمضان کے علاوہ دوسرے دنوں میں بھی ہو سکتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ میں ایک رات مسجد الحرام میں اعتکاف کروں گا۔ آپ نے فرمایا:
’أَوْفِ بِنَذْرِكَ۔‘ (صحیح البخاری،بَابُ إِذَا نَذَرَ فِی الجَاهِلِیَّةِ أَنْ یَعْتَکِفَ ثُمَّ أَسْلَمَ،رقم:۲۰۴۳)
’’یعنی اپنی نذر پوری کر۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نذر اس وقت پوری کی تھی جب آپ سن آٹھ ہجری ماہ ذوالقعدہ میں حنین سے واپسی پر جعرانہ کے مقام پر تشریف فرما تھے۔ اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ غیر رمضان میں بھی اعتکاف ہو سکتا ہے۔
(۵) معتکف کے لیے شرائط یہ ہیں کہ وہ مسلمان ہو اور اگر وہ بچہ ہو تو ممیز ہو۔ جناب، حیض اور نفاس سے پاک ہو۔ فقہ السنۃ،ج:۱،ص:۴۷۷
یاد رہے استحاضہ کا خون اعتکاف سے مانع نہیں۔ اس حالت میں عورت شرعاً طاہرہ ہے۔ نماز، روزہ وغیرہ ادا کرے گی اور خاوند کے لیے مجامعت بھی جائز ہے۔ (وَاللّٰہُ تَعَالٰی اَعْلَمُ ۔) (استحاضہ۔ حیض سے مختلف چیز ہے حیض ایامِ ماہواری کے خون کو کہا جاتا ہے، ان ایام میں عورت کو نماز معاف ہے۔ روزے بھی نہیں رکھ سکتی۔ تاہم روزوں کی بعد میں ادائیگی ضروری ہے۔ استحاضہ میں بھی عورت کوخون آتا ہے لیکن یہ ایک بیماری ہوتی ہے، جس کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے۔ اس میں عورت کے لیے نماز پڑھنا بھی ضروری ہے اور روزہ رکھنا بھی ۔ جیسا کہ حصرت مفتی صاحب حفظہ اللہ نے فرمایا ہے۔ (ص۔ع)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب