السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اعتکاب کب بیٹھنا چاہیے؟ (سائل)(۹ جون ۲۰۰۶ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بیس رمضان کو فجر کے بعد اعتکاف بیٹھنا چاہیے۔ صحیح البخاری، باب الاعتکاف وخروج النبی صبیحۃ عشرین " ’’سنن ابی داؤد‘‘ اور ’’ابن ماجہ‘‘ میں حدیث ہے:
’ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ سَلّمَ إِذَا أَرَادَ أَنْ یَّعْتَکِفَ صَلَّی الْفَجْرَ ثُمَّ دَخَلَ فِیْ مُعْتَکِفِه ‘(صحیح مسلم،بَابُ مَتَی یَدْخُلُ مَنْ أَرَادَ الِاعْتِکَافَ فِی مُعْتَکَفِهِ،رقم: ۱۱۷۲، سنن أبی داؤد، بَابُ الِاعْتِکَافِ، رقم:۲۴۶۴)
’’رسول اللہ ﷺ جب اعتکاف کا ارادہ فرماتے تو فجر کی نماز کے بعد اپنے معتکف میں داخل ہوتے۔‘‘
ظاہر ہے کہ ارادہ وقت سے پہلے ہوگا نہ کہ وقت کے بعد۔
اعتکاف کا آغاز اکیسویں شب سے ہی صحیح ہے: (از مولانا ابوجابر عبداللہ دامانوی۔ کراچی)
آخری عشرہ کا اعتکاف اکیسویں شب کے آغاز اور بیسویں روزہ کے اختتام پر شروع ہوتا ہے اور جس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے معتکف مسجد میں اعتکاف کی نیت سے داخل ہو جائے اوررات مسجد میں گزار کر صبح اپنے معتکف میں داخل ہو کیونکہ آخری عشرہ کی ابتداء سورج غروب ہونے کے ساتھ ساتھ ہوجاتی ہے اور اس کی وضاحت ابن خزیمہ کی ان دو احادیث سے ہوتی ہے۔
’ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ: اعْتَکَفْنَا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الْعَشْرَ الْوَسَطَ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ، فَلَمَّا أَصْبَحَ صَبِیحَةَ عِشْرِینَ وَرَجَعْنَا فَنَامَ فَأُرِیَ لَیْلَةَ الْقَدْرِ ثُمَّ أُنْسِیَهَا، فَلَمَّا کَانَ الْعَشِیُّ جَلَسَ عَلَی الْمِنْبَرِ، فَخَطَبَ النَّاسَ فَذَکَرَ الْحَدِیثَ قَالَ: وَمَنْ کَانَ اعْتَکَفَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَلْیَرْجِعْ إِلَی مُعْتَکَفِهِ ‘(صحیح ابن خزیمہ ،بَابُ الِاقْتِصَارِ فِی الِاعْتِکَافِ عَلَی الْعَشْرِ الْأَوْسَطِ، وَالْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ …الخ(ج:۳،ص: ۳۴۴) رقم :۲۲۲۰، طبع بیروت و اسنادہ حسن)
’’ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے نبیﷺ کے ساتھ درمیانی عشرہ کا رمضان کے مہینے میں اعتکاف کیا، پھر جب بیسویں کی صبح ہوئی تو ہم اپنے گھروں کو چلے گئے۔ بس نبیﷺ سوئے( اور خواب میں لیلۃ القدر کو دیکھا اور فرمایا) پس مجھے لیلۃ القدر دکھائی گئی ہے پھر بھلا دیا گیا۔ پس جب شام ہوئی تو منبر پر تشریف فرما ہوئے اور لوگوں کو خطبہ دیا… اور فرمایا جو شخص رسول اللہﷺ کے ساتھ (آخری عشرہ کا) اعتکاف کرنا چاہے وہ اپنے معتکف میں واپس آجائے۔‘‘
دوسری روایت میں ہے:
’ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، أَنَّهُ قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَعْتَکِفُ فِی الْعَشْرِ الْوَسَطِ مِنْ رَمَضَانَ، فَاعْتَکَفَ عَامًا، حَتَّی إِذَا کَانَ لَیْلَةُ إِحْدَی وَعِشْرِینَ وَهِیَ اللَّیْلَةُ الَّتِی یَخْرُجُ مِنْ صَبِیحَتِهَا مِنَ اعْتِکَافِهِ قَالَ: مَنِ اعْتَکَفَ مَعَنَا فَلْیَعْتَکِفْ فِی الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ وَذَکَرَ الْحَدِیثِ بِطُولِهِ ‘(صحیح ابن خزیمه ،بَابُ وَقْتِ خُرُوجِ الْمُعْتَکِفِ مِنْ مُعْتَکَفِهِ، …الخ،(جلد: ۳،ص:۳۵۳) رقم:۲۲۴۳)
’’ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے رمضان کے درمیانی عشرہ کا اعتکاف فرمایا… یہاں تک کہ جب اکیسویں شب آئی اور یہ وہ شب تھی کہ جس کی صبح کو آپﷺ اعتکاف سے نکل آئے تھے۔ فرمایا کہ جو شخص ہمارے ساتھ اعتکاف کرنا چاہے تو وہ آخری عشرہ کا اعتکاف کرے۔‘‘
پس ثابت ہوا کہ جو اعتکاف اکیسویں رات سے شروع ہو گا وہی آخری عشرہ کا اعتکاف ہو گا اور جس روایت میں صبح کے وقت معتکف میں داخل ہونے کا ذکر ہے وہ اکیسویں تاریخ ہی کی صبح ہے جیسا کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم کی روایات کے عموم سے معلوم ہوتا ہے ۔
عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، یَعْتَکِفُ فِی العَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ، فَکُنْتُ أَضْرِبُ لَهُ خِبَاء ً فَیُصَلِّی الصُّبْحَ ثُمَّ یَدْخُلُهُ ‘(صحیح البخاری،بَابُ اعْتِکَافِ النِّسَاء ِ،رقم:۲۰۳۳)
’’عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبیﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے پس میں آپ کے لیے مسجد میں ایک خیمہ لگا دیتی اور جب آپ صبح کی نماز پڑھتے تو اس میں داخل ہو جاتے۔‘‘ (ابوجابر عبداللہ دامانوی۔ ۶۱۴/۳۶، کیماڑی کراچی :۷،کوڈ:۵۶۳۰)(الاعتصام ۱۸ مئی ۱۹۹۰ء)
(از حافظ ثناء اللہ مدنی﷾)
ماہنامہ’’دعوت اہل حدیث‘‘ اشاعت رمضان المبارک ۱۴۳۱ھ اگست ۲۰۱۰ء میں محترم جناب ڈاکٹر ابوجابر دامانوی کا مقالہ بہ عنوان ’’اعتکاف کب شروع کرنا چاہیے‘‘ شائع ہوا اس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اعتکاف کا آغاز رمضان کی اکیسویں رات سے ہے۔ پھر جو اہل علم بیسیویں کی صبح کے بعد سے اعتکاف کے قائل ہیں ان کے تعاقب کی ناکام سعی فرمائی ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کے الفاظ:
’ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ سَلَّمَ اِذَا اَرَادَ اَنْ یَّعْتَکِفَ صَلَّی الْفَجْرَ ثُمَّ دَخَلَ فِیْ مُعْتَکِفِهٖ ‘
کو مختصر کہہ کر جان چھڑائی ہے۔ حالاں کہ یہ الفاظ موضوع ہیں۔ کیوںکہ ارادہ فعل سے پہلے ہوتا ہے نہ کہ بعد میں۔ اگر یہ صبح اکیسویں رات کی صبح قرار دی جائے تو واقعہ کے خلاف ہے۔ کیوں کہ عمل تو رات کو شروع ہو چکا ہے اب ارادہ کا چہ معنی دارد۔ فتاویٰ ثنائیہ جلد اوّل،ص:۶۴۹ میں مولانا شرف الدین دھلوی رحمہ اللہ نے بھی حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا سے استدلال کیا ہے کہ اعتکاف کا آغاز بیسویں کی صبح کو ہونا چاہیے۔
اور موصوف نے جس مفصل حدیث کی طرف احالہ کیا ہے اس میں مجرد صبح کا ذکر ہے۔ جو موضوع پر نص نہیں بلکہ احتمال غالب ہے کہ یہ بیسویں کی صبح ہو خیمے گاڑنے کی تیاری بھی اس بات کی متقاضی ہے پھر ازواجِ مطہرات کے فعل کو ناپسندکرتے ہوئے نبیﷺ نے اعتکاف کا ارادہ بھی ترک کردیا یہ بھی اسی امر کی دلیل ہے کہ یہ بیسیویں کی صبح ہے۔ ہاں البتہ ’’مسند ابوعوانہ‘‘ کے حوالہ سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے جو روایت نقل کی ہے:
’ کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ سَلَّمَ یَعْتَکِفُ فِیْ کُلِّ شَهْرِ رَمَضَانَ فَاِذَا صَلَّی الْغَدَاةَ جَلَسَ فِی مَکَانِهِ الَّذِیْ اِعتَکَفَ بِلَیْل ۔‘
مضمون نگار کے موقف کی موید ہے لیکن یہ روایت سخت ضعیف ناقابلِ اعتبار ہے۔ اس میں مصنف کا شیخ العطاری احمد بن عبد الجبار کے بارے میں ذہبی نے ’’میزان‘‘ میں کہا ہے:’ضعفہٗ غیر واحد‘ ’’اس کو کئی ایک نے ضعیف کہا ہے۔‘‘ اور حافظ ابن حجر نے ’’تقریب‘‘ میں کہا ’’یہ راوی ضعیف ہے۔‘‘ مزید وضاحت کے لیے مفصل کتابیں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ اختصار کے پیش نظر ہم نے اسی پر اکتفا کی ہے۔
پھرموصوف نے بحث کے اختتام پر ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی ہے جو بخاری اور مسلم میں بایں الفاظ ہے:
’ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ سَلَّمَ کَانَ یَعْتَکِفُ فِی الْعَشْرِ الاَوْسَطِ مِنْ رَمضَانَ فَاعتکف عاما حتی اِذا کَانَ لَیْلَة احدی و عشرین وهی لیلة التی یخرج مِنْ صَبِیْحَتِهَا من اعْتِکَافِه قَالَ مَن کَانَ اعتکف مَعِی فَلیعتکف العشر الاواخر ‘
اس کا ترجمہ مضمون نگار کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں:
’’ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ رمضان کے درمیانی عشرہ کا اعتکاف کیا کرتے تھے۔ پس ایک سال آپﷺ نے اعتکاف فرمایا یہاں تک کہ جب اکیسویں رات آئی اور یہ وہ رات تھی کہ جس کی صبح کو آپﷺ اپنے اعتکاف سے اٹھتے تھے۔ آپﷺ نے فرمایا جو شخص میرے ساتھ اعتکاف کرنا چاہتا ہے تو وہ آخری عشرہ کا اعتکاف کرے۔‘‘
پھر فرماتے ہیں اس سے بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ آخری عشرہ کا آغاز اکیسویں سے ہوتا ہے اور بیسویں کی صبح کو اعتکاف بیٹھنا مفروضے پر مبنی ہے۔ تعجب ہے صاحب موصوف اس حدیث کو نہیں سمجھ پائے ان کے ترجمہ کے مطابق حدیث کا مفہوم یہ ہوگا کہ اکیسویں رات کی صبح کو اعتکاف ترک کردیا جائے دراں حالیکہ اہل علم سے کوئی اس بات کا قائل نہیں یہاں تک کہ خود آپ بھی اس بات کے قائل نظر نہیں آتے۔
اب اس روایت کو ابو سعید خدری رضی اللہ عنہا کی دوسری روایت کی روشنی میں سمجھنا چاہیے۔
اس کے الفاظ یوں ہیں، فرمایا: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے :
’ اعْتَکَفْنَا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ العَشْرَ الأَوْسَطَ مِنْ رَمَضَانَ، فَخَرَجَ صَبِیحَةَ عِشْرِینَ فَخَطَبَنَا، وَقَالَ: إِنِّی أُرِیتُ لَیْلَةَ القَدْرِ… الخ‘
اس حدیث پر امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی’’صحیح‘‘ میںیوں تبویب قائم کی ہے:
’بَابُ الِاعْتِکَافِ وَخَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ صَبِیحَةَ عِشْرِینَ ۔‘
اس سے معلوم ہوا یہ واقعہ بیس کی صبح کا ہے نہ کہ اکیسویں کی صبح کا۔ اس ترجمہ سے مصنف کا مقصود مالک کی سابقہ حدیث جو مالک کے واسطہ سے ابوسعید خدری سے مروی ہے، اس کی تشریح کرنی چاہتے ہیںکہ اس روایت میں بھی مراد بیسویں کی صبح ہے نہ کہ اکیسویں کی صبح۔
قاعدہ معروف ’ الاحادیث یفسر بعضھا بعضھا و ھی اللیلۃ التی یخرج من اعتکافہ صبیحتھا‘ ’’ھا‘‘ ضمیر کا مرجع بیسویں رات کی صبح ہے نہ کہ اکیسویں رات کی صبح۔ اس کی مثال قرآنِ مجید میں ہے:
﴿لَم يَلبَثوا إِلّا عَشِيَّةً أَو ضُحىٰها ﴿٤٦﴾... سورة النازعات
کہ صرف دن کا آخری حصہ یا اوّل حصہ (دنیا میں) رہے اس آیت کریمہ میں دن کے اوّل حصہ کی اضافت آخری حصہ کی طرف ہے حالاں کہ وہ اس سے پہلے ہے۔ شارح بخاری ابن بطال نے کہا ہر وہ شخص جو دوسری شئے کے متصل ہو چاہے پہلے ہو یا بعد اس کی طرف اضافت کا جواز ہے۔ بحوالہ (فتح الباری: ۳۵۶/۴)
نیز بیسویں کی صبح کو رسول اللہﷺ نے خطبہ کے پس منظر میں ارشاد فرمایا لیلۃ القدر جس کی تلاش میں ہم نے رمضان کے درمیانی عشرہ کا اعتکاف کیا ہے وہ آخری عشرہ میں ہے جو میرے ساتھ اعتکاف میںہے وہ اسی حالت میں رہے اور جو گھروں کو جا چکے ہیں وہ واپس آجائیں جانے والے مسجد میں آگئے اور اگر بالفرض آخری دھاکہ کے اعتکاف کا آغاز اکیسویں رات کو ہے تو آپ فرماتے ، رات کو واپس آجانا جب کہ واقعہ اس بات پر شاہد ہے کہ آپ کے ساتھی آخری عشرہ کے لیے بیسویں کی صبح کو اعتکاف میں رہے۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا آخری عشرہ کے اعتکاف کا آغازبیسویں کی صبح سے ہے یہ عملی دلیل ہے جس سے انکار کی گنجائش نہیں۔ واللہ ولی التوفیق۔
باقی رہا عدد کی کمی بیشی کا مسئلہ سو اس میں ہم شریعت کے تابع ہیں۔ قرآنی الفاظ ﴿فَاتَّبِعُوْنِیْ﴾ میں اسی بات کا درس دیا گیا ہے۔
﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾
مسئلہ ہذا پر تفصیلی گفتگو مرعاۃ المفاتیح میں بھی ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ (۱۰ دسمبر ۲۰۱۰ء)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب