سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(278) عورت اعتکاف کہاں بیٹھے مسجد میں یا گھر؟ (چند اعتراضات کا جائزہ)

  • 25393
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-27
  • مشاہدات : 7252

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین کہ عورت کا گھر میں اعتکاف بیٹھنا جائز ہے یا نہیں؟ ایک دو جید علماء کی طرف سے یہ فتویٰ صادر ہوا ہے کہ عورت گھر میں اعتکاف نہیں کر سکتی۔ اس فتویٰ کی بناء پر کچھ کم علم لوگ یہاں تک کہہ گئے ہیں کہ گھر میں عورت کا اعتکاف بیٹھنا گناہ اور بدعت ہے۔ اس ضمن میں مجھے خیال آیا کہ پوری تحقیق کرنا ضروری ہے کیونکہ اکثر عورتیں گھر میں اعتکاف کرتی آئی ہیں اور اب بھی کرتی ہیں۔ میرا علم چونکہ ناقص ہے۔ اس لیے

﴿فَسْئَلُوْٓا اَهْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ﴾(النحل:۴۳) کے تحت عرض کرتا ہوں۔

(۱) اللہ پاک نے قرآن پاک میں روزہ کے احکام بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ﴿وَ لَا تُبَاشِرُوْهُنَّ وَ اَنْتُمْ عٰکِفُوْنَ فِی الْمَسٰجِدِ﴾(البقرۃ:۱۸۷)

’’اگر تم مسجدوں میں اعتکاف کرنے والے ہو تو رات کو بھی اپنی بیویوں سے مباشرت نہ کرو۔‘‘

یہ حکم کہ مسجدوں میں ہی اعتکاف کرو! موجود نہیں ہے۔ جس میں ہم عورتوں اور مردوں کو برابر کا شامل کر سکیں۔ برعکس اس کے قرآن پاک میں فرض نماز کو باجماعت ادا کرنے کا حکم ﴿وَارْکَعُوْا مَعَ الرّٰکِعِیْنَ﴾ (البقرۃ:۴۳) موجود ہے۔ جس میں مرد اور عورت دونوں شامل تھیں ۔ مگر نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ عورت کی نماز گھر میں بہتر ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہاں حضرت کا فرمان موجود ہے تو میرا مقصد بھی یہی ہے کہ فرضی نماز کے متعلق تو حکم ہوا کہ عورت کی نماز گھر میں بہتر ہے۔ مگر اعتکاف جو کہ نفلی عبادت ہے اس کے لیے عورت کو مسجد کی پابندی کا حکم کیوں؟ اور کس دلیل سے؟ یعنی قرآن پاک کی کس آیت کے ماتحت یا کس حدیث کے ماتحت۔

۱۔         ﴿وَ اَنْتُمْ عٰکِفُوْنَ فِی الْمَسٰجِدِ﴾حکم نہیں ہے۔

۲۔        عورتوں کا مسجد میں ہی اعتکاف کرنا ذکر نہیں۔

۳۔        فرضی عبادت عورت کی گھر میں بہتر ہے۔ نفلی عبادت اعتکاف کے متعلق مسجد کی پابندی کیسے ہے؟ وضاحت فرمادیں۔

(۲)       علاوہ ازیں میرے ذہن میں چند ایک سوالات آتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کے جوابات ملنے سے یہ مسئلہ واضح ہو سکتا ہے۔ اور حل ہو سکتا ہے۔

۱۔         امہات المومنین کا اپنے خاوند نبی اکرمﷺ کے ساتھ مسجد میں اعتکاف کرنا صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ مگر دیکھنا یہ ہے کہ امہات المومنین کے علاوہ کتنی صحابیات مسجد میں اعتکاف کرتی رہیں۔ ان کی فہرست مل جاوے تو یہ مسئلہ ثابت ہو جائے گا کہ امہات المومین کی سنت پر کتنی صحابیات نے عمل کیا۔ اور یہ بھی ثابت ہو جائے گا کہ امہات المومنین کی سنت جاریہ ساریہ رہی۔

۲۔        حدیث میں ہے کہ نبیﷺ کی بیویاں آپ کی وفات کے بعد بھی اعتکاف کرتی رہیں۔ اگر اس کی وضاحت مل جاوے کہ وہ آپﷺ کی وفات کے بعد بھی مسجد میں ہی کرتی رہیں تو بھی مسئلہ صاف ہو سکتا ہے۔ باوجود اس کے کہ وہ تو امہات المومنین تھیں۔

۳۔        نبی کریمﷺ کا اگر فرمان مل جاوے کہ عورتیں بھی مسجد میں ہی اعتکاف کیا کریں؟

۴۔        اگر یہ کہا جائے کہ جس طرح نبی کریمﷺ کی بیویاں اپنے خاوند کے ساتھ بیٹھی تھیں۔ اگر کسی عورت کا خاوند مسجد میں معتکف ہو تو وہ اپنے خاوند کے ساتھ مسجد میں اعتکاف کر سکتی ہے ورنہ نہیں تو ہر عورت کو مسجد میں اعتکاف کرنے پر ہم کس دلیل سے پابندی لگا سکتے ہیں۔ کسی صحابیہ نے خاوند کے بغیر مسجد میں اعتکاف کیا؟

۵۔        جب کہ عورت کی آواز غیر محرم نہ سنے، کے تحت نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اگر امام بھول جاوے تو عورت لفظ سُبْحَانَ اللّٰہ نہ کہے بلکہ اُلٹے ہاتھ سے تالی لگائے تاکہ غیر محرم اُس کی آواز نہ سنے۔

۶۔        پردہ کی پابندی کے سلسلہ میں فرمایا کہ ان کی چادریں لٹکتی جائیں تاکہ کسی آدمی کی نظر ان کی ایڑیوں پر بھی نہ پڑے۔

۷۔        کیا اس مسئلہ میں ہمارے پاس قرآن پاک کا واضح حکم یا نبی کریمﷺ کی واضح حدیث موجود ہے؟

(۳)      علامہ وحید الزمانؒ  جنھوں نے کتب احادیث کا ترجمہ اور تشریح کی ہے اور ہمارے اہل حدیث بھی اُس کو پسند کرتے ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  کا قول جو کہ ’’سنن ابی داؤد‘‘ مترجم علامہ وحید الزمان جلد:۲،ص:۲۷۸ میں ہے۔ امام ابوداؤد رحمہ اللہ  نے لکھا ہے :’’ جامع مسجد کی شرط کا راوی عبدالرحمن بن اسحاق کے علاوہ کوئی بھی قائل نہیں ہے۔‘‘

۲۔        ’’سنن ابی داؤد‘‘ مترجم علامہ وحید الزمان(جلد:۲،ص:۲۷۵) اعتکاف کے باب کی پہلی حدیث جس کے آخری الفاظ یہ ہیں: ’ثُمَّ اعْتَکَفَ اَزْوَاجُهُ مِنْ بَعْدِهٖ ‘(صحیح البخاری،بَابُ الِاعْتِکَافِ فِی العَشْرِ الأَوَاخِرِ، وَالِاعْتِکَافِ فِی المَسَاجِدِ کُلِّهَا،رقم:۲۰۲۶،سنن أبی داؤد،بَابُ الِاعْتِکَافِ،رقم:۲۴۶۲)

            اس پر علامہ صاحب فائدہ میں لکھتے ہیں۔ (پھر اعتکاف کیا حضرت کی بیبیوں نے یعنی اپنے گھروں میں ، اس لیے کہ فقہاء نے کہا ہے کہ مستحب ہے عورتوں کو کہ اعتکاف کریں مسجد البیت میں اور اگر مسجد البیت نہ ہو تو ایک جگہ کو گھر میں مسجد ٹھہرا کر اُس میں اعتکاف کریں۔ پس وہ ان کے حق میں حکم مسجد کا رکھتی ہے۔ بلاضرورت اُس میں سے نہ نکلیں۔

۳۔        بخاری شریف مترجم علامہ وحید الزمان جلد:۲صفحہ ۳۴۲، باب اعتکاف النساء پر نمبر ۳ دے کر حاشیہ میں لکھا ہے (امام شافعی رحمہ اللہ نے ان مسجدوں میں جہاں جماعت ہوتی ہو۔ عورت کے لیے اعتکاف کرنا مکروہ جانا ہے۔ البتہ اگر اس کا خاوند بھی وہاں اعتکاف کرے تو اس کے ساتھ مکروہ نہیں۔ امام احمد رحمہ اللہ  سے بھی ایسی ہی روایت ہے ۔ اور اپنے گھر کی مسجد میں ہر طرح عورت کو اعتکاف کرنا درست ہے۔)

۴۔        بخاری شریف مذکور کے صفحہ ۳۴۰ پر حاشیہ نمبر۲ میں علامہ صاحب نے محمد بن عمر مالکی کا حوالہ دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اعتکاف کے لیے مسجد شرط نہیں ہے۔

عرض: مندرجہ بالا حوالہ جات میں نے اس لیے تحریر نہیں کیے کہ یہ فیصلہ کن ہیں۔ صرف اس لیے تحریر کردیے ہیں کہ ان کو بھی مد نظر رکھتے ہوئے آپ مدلل اور باحوالہ فتویٰ صادر فرمادیں۔

نوٹ: حوالہ دیتے وقت کتاب کا نام اور باب اور صفحہ درج فرمادیں تاکہ آسانی سے تلاش کیا جا سکے نوازش ہو گی۔منجانب(ماسٹر احمد دین۔ کوٹ رادھا کشن) (۲۲ مارچ ۱۹۹۶ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سب سے پہلے اہل شرع کے ہاں اعتکاف کی تعریف ملاحظہ فرمائیں تاکہ اصل مسئلہ سمجھنے میں آسانی رہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:

’ الْمَقَامُ فِی الْمَسْجِدِ مِنْ شَخْصٍ مَخْصُوصٍ عَلَی صِفَةٍ مَخْصُوصَةٍ ۔‘

’’یعنی مخصوص شخص کا مخصوص صفت پر مسجد میں ٹھہرے رہنے کا نام اعتکاف ہے۔‘‘

اس تعریف سے معلوم ہوا کہ شرعی اعتکاف صرف اس صورت میں اعتکاف قرار پائے گا جب وہ مصطلح حقیقی مسجد میں ہو مجازی جائے نماز کو مطلقاً اس سے کوئی عمل دخل نہیں۔اس طرح تو چند مخصوص مقامات کے علاوہ روئے زمین کو بعض احادیث میں جائے نماز قرا دیا گیا ہے۔ ارشاد ہے:

’ جُعِلَتْ لِیَ الْاَرْضَ مَسْجِدًا وَ طَهُوْرًا ۔‘

’’بایں وجہ تو کیا ساری زمین پر اعتکاف کا جواز ہے؟ ہر گز نہیں۔‘‘

اسی طرح محلِّ نزاع میں سمجھ لینا چاہیے کہ کتاب و سنت کی نصوص میں جس مسجد کا ذکر ہے وہ اصطلاحی مسجد ہے جس کے اپنے احکام و مسائل و آداب ہیں، جن کی صراحت کتب احادیث کی ورق گردانی سے مل سکتی ہے۔ وہاں جنبی آدمی اور حائضہ کو داخل ہونا ممنوع ہے۔ دوسری طرف عورت کی گھر میں نماز کی افضلیت پر قیاس کرتے ہوئے اس کے لیے گھر میں اعتکاف کا جواز پیدا کرنا بھی غیر معقول بات ہے تو کیا خیال ہے۔ مرد کی نفلی نماز بھی تو گھر میں افضل ہے جب کہ اعتکاف بھی غیر واجب ہے۔ پھر تو مردوں کے لیے بھی گھر میں اعتکاف بیٹھنے کا جواز ہونا چاہیے شاید کہ اس بناء پر فقیہ محمد بن عمر بن لبابہ مالکی اس بات کے قائل ہوگئے کہ اعتکاف کے لیے مسجد کا وجود شرط نہیں۔

اس بارے میں یقینا آپ کا جواب بھی نفی میں ہو گا تو اس مذہب کو محض نقل کردینا آپ کے لیے فائدہ مندثابت نہ ہوا اور حنفیوں کے نزدیک چونکہ عورت کا طریقہ عبادت گھر کی چاردیواری تک محصور ہے اس بناء پر ان کا مذہب کہ عورت مسجد البیت(گھر کی مسجد) میں اعتکاف کرے معقول ہے۔

اس کے باوجود بعض فقہاء حنفیہ اس بات کے قائل ہیں کہ عورت کا اعتکاف مسجد میں بھی درست ہے۔ چنانچہ (منیۃ المفتی) میں ہے:

’ لَوْ اِعْتَکَفَتْ فِی الْمَسْجِدِ جَازَ ۔‘

اور ’’البدائع‘‘ میں ہے:

’ لَهَا اَنْ تَعْتَکِفَ فِی مَسْجِدِ الْجَمَاعَةِ ۔‘

تعجب ہے علامہ وحید الزمان جیسی فاضل شخصیت سے آخری دورِ حیات میں تقلیدی جمود سے آزاد ہونے کے باوجود وہ بلا استناد مسلک کے کس طرح قائل ہو گئے۔ ’ ثُمَّ اعْتَکَفَ اَزْوَاجُہُ مِنْ بَعْدِہٖ ‘ کی تشریح یہ کرنا کہ ’’ پھر اعتکاف کیا حضرت کی بیبیوں نے یعنی اپنے گھروں میں ‘‘ سراسرنصِ حدیث سے زیادتی ہے جس کا کوئی اصل نہیں۔ دراصل اس کی بناء محض بعض فقہاء کے مذہب پر ہے جس کا کوئی اصل نہیں۔

صاحب ’’المرعاۃ‘‘ اس کی تفسیر میں رقمطراز ہیں:

’ اَیْ مِنْ بَعْدِ مَوْتِهٖ اِحیَاءً لِسُنَّتِهٖ وَ اِبْقَاءً لِطَرِیْقَتِهٖ ۔‘ (۳۱۰/۳)

یعنی ازواجِ مطہرات نے آپﷺکی وفات کے بعد اعتکاف آپﷺ کی سنت اور طریقہ کو زندہ اور باقی رکھنے کے لیے کیا ہے۔ اب ہر فرد غوروفکر کرسکتا ہے کہ اعتکاف میں آپﷺ کی سنت اور طریقہ کار کیا تھا۔ ظاہر ہے کہ جملہ امور کاتعلق مسجد سے ہے نہ کہ گھر سے۔

لہٰذا ازواجِ مطہرات کے فعل کو گھر پر محمول کرنا سراسر باطل ہے۔

کیا ازواجِ النبیﷺ نے آپﷺ کی زندگی میں اعتکاف بیٹھنے کا عزم مسجد میں کیا تھا۔ یا گھر میں؟’’صحیح بخاری‘‘وغیرہ کی احادیث واقعاتی طور پر اس امر پر شاہد ہیں کہ اس سارے قصے کا تعلق مسجد سے ہے۔ تو پھر آپﷺ نے اس فعل پر نکیر فرمائی؟ ہر گز نہیں۔ سو یہی روایت عورت کے لیے مسجد میں اعتکاف بیٹھنے کے جواز کی واضح دلیل ہے۔

’’فتح الباری‘‘ میں ہے:

’ أَنَّ الْمَرْأَةَ إِذَا اعْتَکَفَتْ فِی الْمَسْجِدِ اسْتُحِبَّ لَهَا أَنْ تَجْعَلَ لَهَا مَا یَسْتُرُهَا وَیُشْتَرَطُ أَنْ تَکُونَ إِقَامَتُهَا فِی مَوْضِعٍ لَا یُضَیِّقُ عَلَی الْمُصَلِّینَ ۔‘ (۲۷۷/۴)

البتہ اس سال کسی دوسرے سبب سے آپﷺ نے اعتکاف ترک کردیا تھا جس کا متنازعہ فیہ مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں۔ اور جن لوگوں نے عورت کے مسجد میں اعتکاف کے لیے خاوند کے وجود کی شرط لگائی ہے۔ یہ بھی کمزور مسلک ہے۔ اس لیے کہ جب یہ امر مسلّمہ ہے کہ ازواجِ مطہرات نے آپﷺکی وفات کے بعد بھی اعتکاف کیا ہے اور قرآن میں ان کے بارے میں یہ حکم بھی موجود ہے:

﴿وَلا أَن تَنكِحوا أَزو‌ٰجَهُ مِن بَعدِهِ أَبَدًا ...﴿٥٣﴾... سورة الأحزاب

’’اور نہ یہ کہ ان کی بیویوں سے کبھی ان کے بعد نکاح کرو۔‘‘

تو اس سے معلوم ہوا عورت اکیلی بھی بلاوجودِ خاوند اعتکاف کر سکتی ہے۔

یہ بھی یاد رہے عہدِ نبوت میں کئی ایک صحابیات مسجد نبویﷺ میں رہائش پذیر تھیں۔ ملاحظہ ہو’’صحیح بخاری‘‘وغیرہ اس سے بھی اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ عورت کا قیام مسجد میں ممکن ہے۔ باقی رہی یہ بات کہ عورت پردہ ہے ۔ بلاشبہ وہ پردہ ہے لیکن جہاں تک اس کی آواز کے پردہ ہونے کا تعلق ہے، سو یہ محل نظر ہے کیونکہ بہت ساری صحابیات وقتاً فوقتاً آپﷺ سے مسائل دریافت کرنے آتی تھیں۔ کبھی آپﷺنے انکار نہیں فرمایا کہ عورت کی آواز تو پردہ ہے۔

قرآن میں بھی ازواجِ مطہرات کو غیروں سے گفتگو اور مکالمہ کی بایں الفاظ اجازت مرحمت کی گئی ہے: ﴿فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ﴾(الاحزاب:۳۲) (کسی اجنبی شخص سے نرم نرم باتیں نہ کریں)

نیز فرمایا: ﴿فَسْئَلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ﴾(الاحزاب:۵۳) اور جہاں تک اس روایت کا تعلق ہے جس سے موصوف نے عورت کی آواز کے پردہ ہونے کی دلیل لی ہے۔ (وَاللّٰہُ تَعَالٰی اَعْلَمُ ۔)

دراصل مرد و زن میں یہ تفریق نسوانیت کے کمزور پہلو کی بناء پر ہے کہ بسا اوقات اچانک زبان سے بولنا عورت کے لیے گراں ہوتا ہے۔ اس بناء پر اس کی تالی کو مرد کے بولنے کے قائم مقام قرار دیا گیا ہے ۔ قرآن میں ہے:

﴿وَهُوَ فِی الْخِصَامِ غَیْرُ مُبِیْنٍ﴾ (الزخرف:۱۸)

نیز احتمال ہے کہ یہ تفریق تعبدی (عقل سے بالاترحکم) ہو۔ باقی رہا صاحب موصوف کا یہ دعویٰ کہ قرآن میں مسجدوں میں اعتکاف کا حکم موجود نہیں، یہ امام بخاری رحمہ اللہ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  کے فہم کے خلاف ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  آیت ہذا سے امام بخاری رحمہ اللہ  کے استدلال کی تشریح یوں فرماتے ہیں:

’ وَوَجْهُ الدَّلَالَةِ مِنَ الْآیَةِ أَنَّهُ لَوْ صَحَّ فِی غَیْرِ الْمَسْجِدِ لَمْ یَخْتَصَّ تَحْرِیمُ الْمُبَاشَرَةِ بِهِ لِأَنَّ الْجِمَاعَ مُنَافٍ لِلِاعْتِکَافِ بِالْإِجْمَاعِ فَعُلِمَ مِنْ ذِکْرِ الْمَسَاجِدِ أَنَّ الْمُرَادَ أَنَّ الِاعْتِکَافَ لَا یکون الا فِیهَا ۔‘

یعنی آیت ہذا سے وجہ دلالت یہ ہے کہ اعتکاف اگر مسجد کے علاوہ بھی درست ہو تو پھر اس کو مباشرت کی حرمت سے مخصوص کرنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ جماع بالاجماع اعتکاف کے منافی ہے تو مساجد کے ذکر سے معلوم ہوا مراد اس سے یہ ہے کہ اعتکاف مسجدوںسے مخصوص ہے۔ ‘‘

اس بناء پر ابن حجر رحمہ اللہ  شارح بخاری رقمطراز ہیں:

’وَاتَّفَقَ الْعُلَمَاء ُ عَلَی مَشْرُوطِیَّةِ الْمَسْجِدِ لِلِاعْتِکَافِ ۔‘ (فتح الباری:۲۷۲/۴)

یعنی ابن لبابہ کے ما سوا علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اعتکاف کے لیے مسجد کا وجود شرط ہے۔‘‘

وَأَجَازَ الْحَنَفِیَّةُ لِلْمَرْأَةِ أَنْ تَعْتَکِفَ فِی مَسْجِدِ بَیْتِهَا وَهُوَ الْمَکَانُ الْمُعَدُّ لِلصَّلَاةِ فِیهِ وَفِیهِ قَوْلُ الشَّافِعِی قدیم ‘

پھر صفحہ:۴۷۷ پر فرماتے ہیں

’وَفِیهِ أَنَّ الْمَسْجِدَ شَرْطٌ لِلِاعْتِکَافِ لِأَنَّ النِّسَاء َ شُرِعَ لَهُنَّ الِاحْتِجَابُ فِی الْبُیُوتِ فَلَوْ لَمْ یَکُنِ الْمَسْجِدُ شَرْطًا مَا وَقَعَ مَا ذُکِرَ مِنَ الْإِذْنِ وَالْمَنْعِ وَلَاکْتُفِیَ لَهُنَّ بِالِاعْتِکَافِ فِی مَسَاجِدِ بُیُوتهنَّ ۔‘

نیز حدیث ’اِذَا اعْتَکَفَ اَدْنٰی اِلَیَّ رَأْسَہٗ وَ ھُوَ فِی الْمَسْجِدِ ‘  میں بھی اس امر کی دلیل ہے کہ اعتکاف مسجد کے ما سوا غیر درست ہے۔ چنانچہ’’المرعاۃ‘‘(۳۱۳/۳) میں ہے:

’وَ فِیْهِ اَنَّ الْاِعْتِکَافَ لَا یَصِحُّ فِیْ غَیْرِ الْمَسْجِدِ وَ اِلَّا لَکَانَ لَهُ اَنْ یَّخْرُجَ مِنْهُ لِتَرْجِیْلِ الرَّأْسِ‘

یعنی ’’ اس حدیث میں دلیل ہے کہ اعتکاف مسجد کے علاوہ غیر درست ہے ورنہ آپﷺ کے لیے ممکن تھا کہ سر مبارک کی کنگھی کے لیے باہر تشریف لے جاتے ۔ ‘‘

پھر قرآنی عموم کا تقاضا یہ ہے کہ ہرمسجد میں اعتکاف کا جواز ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ  کا یہی مسلک ہے۔ ہاں البتہ عبدالرحمن بن اسحاق( جس کی توثیق ابن معین نے کی ہے) اس کی روایت کی بناء پر بعض اہل علم کا کہنا ہے۔ ’’اولیٰ یہ ہے کہ اعتکاف جامع مسجد میں ہو۔‘‘

 اور بعض دیگر نے واجب قرار دیا ہے۔ علامہ البانی رحمہ اللہ  نے ’’الاروائ‘‘ میں روایت ہذا کو صحیح کہا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:(المرعاۃ :۳۲۹/۳)

یاد رہے فتنہ و فساد کے ڈر سے اگر عورت اعتکاف مطلقاً چھوڑ دے تو پھر بھی درست فعل ہے۔ تاہم اعتقادِجواز بہر صورت قائم رہنا چاہیے۔ عمل کی نوبت نہ بھی آئے تو کوئی حرج نہیں۔ موجودہ دَور میں الحمد للہ(جملہ تحفظات کے ساتھ مسلک اہل حدیث کی کتنی مساجد میں عورتوں کے اعتکاف کا سلسلہ سالہا سال سے جاری و ساری ہے۔اس کی واضح مثال ہماری مسجد واقع قصبہ سرہالی کلاں ضلع قصور ہے۔ یہاں عورتوں کی ایک معقول تعداد ہر سال اعتکاف بیٹھتی ہیں۔ اخیر میں یہ بھی یاد رہے کہ کسی مسئلہ کے اثبات کے لیے کتاب و سنت کی نصوص ہی اہم ہوتی ہیں۔ اس کے مطابق بعد میں افراد امت کا عمل مل جائے تو سونے پر سہاگہ ہے۔ اور اگر نہ بھی دستیاب ہو تو اسی کو حرزِ جان سمجھ کر عمل جاری رہنا چاہیے۔

صاحب ’’المرعاۃ ‘‘ رقمطراز ہیں:

’وَ لَا یَخْفی اَنَ النَّاسَ اِذَا تََرَکُوْا العْمَلَ بِسُنَّتِهٖ ثَابِتَة لَمْ یَکُنْ تَرْکُهُمْ دَلِیْلًا تَرُدُّ بِهِ السُّنَّة قَالَ النَّوَوِیُّ اِذَا ثَبتت السُّنَّة لَا تترك لِتَركِ عَملِ بَعْض النَّاسِ اَو اَکْثَرِهِمْ اَوْ کُلِّهِمْ ۔‘ (۳۷۹/۳)

لہٰذا ازواجِ مطہرات کے بعد عامل صحابیات کی فہرست اگر نہ بھی میسر آئے تب بھی اصل مسئلہ پر زد نہیں پڑتی جس طرح صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ نبیﷺ نے بلا سفر مدینہ میں جمع بین الصلوٰتین پر عمل کیا تھا۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے کتاب ’’العلل‘‘ میں فرمایا: جتنی احادیث کو میں نے اپنی سنن میں جمع کیا ہے۔ سب پر امت میں سے کسی نہ کسی کا عمل ہے۔ ما سوائے دو حدیثوں کے جن میں سے ایک مشارٌ الیہ روایت ہے اس کے باوجود بعد میں کئی ایک محققین وقتاً فوقتاً اس پر عمل کے قائل ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ حدیث صحیح ہے اور نسخ وغیرہ ثابت نہیں ہو سکا۔

اللہ عزوجل جملہ مسلمانوں کو کما حقہ کتاب و سنت کا فہم نصیب فرما کر خیر الورٰی احمد مجتبیٰﷺ کے طریقہ مسلوکہ کے مطابق عمل کی توفیق بخشے۔ آمین

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الصوم:صفحہ:261

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ