سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(274) کیا اعتکاف مساجد ثلاثہ سے مخصوص ہے؟

  • 25389
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 778

سوال

(274) کیا اعتکاف مساجد ثلاثہ سے مخصوص ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض سلفی بھائیوں سے سنا ہے کہ اعتکاف ہر مسجد میں نہیں ہے۔ صرف تین مساجد میں اعتکاف سنت بتاتے ہیں اور بیہقی اور طحاوی کا حوالہ دیتے ہیں کہ َلا اِعْتِکَافُ اِلَّا فِی ثَلٰثَۃِ مَسَاجِد اور کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ حدیث مذکورہ کے حوالہ سے قرآن کے عام حکم کو خاص کرتے ہیں۔(فیض محمد بن مولاداد ،کوٹ اسماعیل زئی گڑھی کپورہ تحصیل ضلع مردان) (۱۲ مارچ ۱۹۹۳ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سوال میں مذکور روایت ’’سنن کبریٰ بیہقی‘‘(ص:۲۱۶،ج:۴) میں بایں الفاظ ہے:

’ لَا اعْتِکَافَ إِلَّا فِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ  ‘ أَوْ قَالَ : إِلَّا فِی الْمَسَاجِدِ الثَّلَاثَةِ ‘(السنن الکبریٰ للبیهقی،بَابُ الِاعْتِکَافِ فِی الْمَسْجِدِ،رقم:۸۵۷۴)

یعنی’’ اعتکاف صرف مسجد الحرام میں ہے یا یوں فرمایا صرف تین مسجدوں میں ہے۔‘‘

اور منتقی الاخبار میں بحوالہ ’’سنن سعید بن منصور‘‘ روایت کے الفاظ یوں ہیں:

’لَا اِعْتِکَافَ اِلَّا فِی الْمَسَاجِدِ الثَّلَاثَة اَو قَالَ فِی مَسْجِدِ جَمَاعَةٍ ‘

’’اعتکاف صرف تین مسجدوں میں ہے یا فرمایا اعتکاف اس مسجد میں ہے جہاں نماز باجماعت کا اہتمام ہو۔‘‘

امام شوکانی’’نیل الاوطار‘‘(ص:۴۸۴، جزئ:۴) میں فرماتے ہیں لیکن ’’ابن ابی شیبہ‘‘ نے روایت ہذا کا مرفوع حصہ بیان نہیں کیا ۔ صرف حذیفہ رضی اللہ عنہ  اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی گفتگو پر اکتفا کیا ہے۔ اس کے الفاظ یوں ہیں:

’ إنَّ حُذَیْفَةَ جَائَ إلَی عَبْدِ اللَّهِ فَقَالَ : أَلَا أَعْجَبَكَ مِنْ قَوْمٍ عُکُوفٌ بَیْنَ دَارِک وَ دَارِالْأَشْعَرِیِّ، یَعْنِی الْمَسْجِدَ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ : فَلَعَلَّهُمْ أَصَابُوا وَأَخْطَأْتَ۔‘ (نیل الاوطار،رقم:۱۷۶۸)

’’یعنی حذیفہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ  کے پاس آیا کہا کیا میں تجھے تعجب والی بات نہ بتاؤں، کچھ لوگ تیرے اور اشعری کے گھر کے درمیان یعنی مسجد میں اعتکاف بیٹھے ہیں جواباً عبد اللہ نے کہا ممکن ہے ان کافعل درست ہو(روکنے میں) تجھ سے غلطی سرزد ہوئی ہو۔‘‘

پھر علامہ موصوف رقمطراز ہیں:

’ فَهَذَا یَدُلُّ عَلَی أَنَّهُ لَمْ یَسْتَدِلَّ عَلَی ذَلِكَ بِحَدِیثٍ عَنْ النَّبِیِّ - صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ - وَعَلَی أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ یُخَالِفُهُ وَیَجُوزُ الِاعْتِکَافُ فِی کُلِّ مَسْجِدٍ، وَلَوْ کَانَ ثَمَّ حَدِیثٌ عَنْ النَّبِیِّ - صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ - مَا خَالَفَهُ، وَأَیْضًا الشَّكُّ الْوَاقِعُ فِی الْحَدِیثِ مِمَّا یُضْعِفُ الِاحْتِجَاجُ أَحَدَ شِقَّیْهِ ‘

یعنی ’’اس سے معلوم ہوا کہ حذیفہ کا استدلال حدیث رسولﷺ پر مبنی نہیں تھا۔ اور اسی بناء پر بھی کہ عبد اللہ ان کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اور ہر مسجد میں اعتکاف کے جواز کے قائل ہیں اور اگر کوئی مرفوع حدیث نبیﷺ سے موجود ہوتی تو عبداللہ مخالفت نہ کرتے۔ اور اسی طرح حدیث میں واقع شک بھی ایک طرف استدلال کو کمزور کرتا ہے۔‘‘

نیز حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  جیسے عظیم محدث نے ’’فتح الباری‘‘(ج:۴،ص:۲۷۲) میں حذیفہ کا قول نقل کیا ہے کہ اعتکاف تین مساجد سے مخصوص ہے لیکن بطورِ استدلال یہ روایت نقل نہیں کی حالانکہ مقام کا تقاضا تھا اس کو بیان کیا جاتا … ایسے موقع پر مستدل کی موجودگی کے باوجود ذکر نہ کرنا۔ محدثین کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا بالخصوص جب کہ امیر المومنین فی الحدیث بخاری نے اپنی ’’ صحیح ‘‘ میں بایں الفاظ تبویب قائم کی ہو۔

’ بَابُ الِاعْتِکَافِ فِی العَشْرِ الأَوَاخِرِ، وَالِاعْتِکَافِ فِی المَسَاجِدِ کُلِّهَا ۔ لِقَوْلِهِ تَعَالَی﴿ وَلاَ تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاکِفُونَ فِی المَسَاجِدِ، تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلاَ تَقْرَبُوهَا کَذَلِكَ یُبَیِّنُ اللَّهُ آیَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَّقُونَ﴾ (البقرة:۱۸۷) ۔‘

یہ امر تو مزید اہتمام کا متقاضی تھا کہ روایت ہذا کو مقامِ بحث میں ذکر کیا جاتا اِذْ لَیْسَ فَلَیْسَ۔ بنا بریں اس روایت سے قرآن کے عموم ﴿وَأَنْتُمْ عَاکِفُونَ فِی المَسَاجِدِ ﴾ کی تخصیص کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الصوم:صفحہ:259

محدث فتویٰ

تبصرے