سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(248) عاشورہ کا روزہ کس تاریخ کو رکھا جائے؟ نیز عاشورہ کا روزہ ایک ہے یا دو؟

  • 25363
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1227

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

یوم عاشورہ کے روزے کے بارے میں صراحت فرمائیں کہ یہ روزہ دو دن کا ہے یا ایک دن کا ؟ اور اگر دو دن کا ہے تو کونسے دو دن کا ؟ نیز زید کی دلیل ہے کہ دس کو تو یہود رکھتے تھے، اس لیے دس تو بالکل منسوخ ہے۔ البتہ نو اور گیارہ محرم میں اختیار ہے۔ یعنی زید کے نزدیک روزہ ایک ہے دو نہیں۔ کیا حدیث کے الفاظ یہ ثابت کرتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ میں دس محرم کے ساتھ ایک اور روزہ رکھوں گا یا پھر صرف دوسرے روزے کا ذکر کیا تھا؟ (عزیز الرحمن اسلام آباد)  (۳۰ اگست ۱۹۹۶ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسئلہ ہذا میں اہل علم کا سخت اختلاف ہے۔ ظاہر یہ ہے کہ مکی زندگی اور مدنی زندگی کے بیشتر حصہ میں نبیﷺ صرف دسویں محرم کا روزہ رکھتے تھے۔ بعد ازاں یہود کی مخالفت پر کمر بستہ ہوئے تو فرمایا : آئندہ سال اگر زندگی نے ساتھ دیا تو نویں محرم کا روزہ رکھوں گا لیکن محرم کی عملی تکمیل سے پہلے آپﷺ وفات پا گئے۔ یہاں دو احتمال ہیں۔ ایک یہ کہ دسویں کا روزہ نویں تاریخ کی طرف منتقل سمجھا جائے۔ دوسرا یہ کہ نویں تاریخ کو دسویں کے ساتھ ملا کر دو روزے رکھے جائیں۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں: ’’ اس امر کی وضاحت سے قبل آپ کا انتقال ہو گیا۔ احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ دو روزے رکھے جائیں۔ اس بناء پر عاشوراء کے روزے کی تین صورتیں ہوئیں، صرف دسویں کا روزہ رکھاجائے۔ دسویں کے ساتھ نویں کو ملایا جائے نویں اور گیارہویں کا روزہ رکھا جائے۔

میرے خیال میں دسویں کے روزے کو کلیۃً منسوخ قرار دینا درست فعل نہیں کیوں کہ بنیادی طور پر مقصود تو یہود کی مخالفت ہے سو وہ نویں یا گیارہویں کا روزہ ساتھ ملانے سے حاصل ہو جاتی ہے۔ چنانچہ اس کی تائید ’’مسند احمد‘‘ کی روایت سے ہوتی ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا عاشورا کا روزہ رکھو اور ایک روزہ اس سے پہلے یا بعد رکھ کر یہود کی مخالفت بھی کرو۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

’ وَهَذَا کَانَ فِی آخِرِ الْأَمْرِ ۔‘

یعنی ’’یہ آپﷺ کا آخری حکم ہے۔‘‘ نیز فرماتے ہیں:

’بل تاکد اسْتِحْبَابه بَاقٍ وَلَا سِیمَا مَعَ اسْتِمْرَارِ الِاهْتِمَامِ بِهِ حَتَّی فِی عَامِ وَفَاتِهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَیْثُ یَقُولُ لَئِنْ عِشْت لأ صومن التَّاسِعَ وَالْعَاشِرَ وَلِتَرْغِیبِهِ فِی صَوْمِهِ وَأَنَّهُ یُکَفِّرُ سَنَةً وَأَیُّ تَأْکِیدٍ أَبْلَغُ مِنْ هَذَا ۔‘ (فتح الباری :۲۴۷/۴)

امام شافعی رحمہ اللہ  اور ان کے اصحاب احمد رحمہ اللہ ،اسحاق رحمہ اللہ  اور دیگر کئی ایک اہل علم اس بات کے قائل ہیں:

’یُسْتَحَبُّ صَوْمُ التَّاسِعِ وَالْعَاشِرِ جَمِیعًا ۔‘ (شرح النووی:۱۲/۷)

’’ یعنی مستحب یہ ہے کہ نویں اور دسویں تاریخ کا اکٹھا روزہ رکھا جائے۔‘‘

چند سطور بعد رقم طراز ہیں:

’ قَالَ بَعْضُ الْعُلَمَاء ِ وَلَعَلَّ السَّبَبَ فِی صَوْمِ التَّاسِعِ مَعَ الْعَاشِرِ أَنْ لَا یَتَشَبَّهَ بِالْیَهُودِ فِی إِفْرَادِ الْعَاشِرِ۔‘

یعنی ’’ بعض علماء نے کہا ممکن ہے دسویں کے ساتھ نویں کا روزہ رکھنے کاسبب یہ ہو کہ اکیلا دسویں کا روزہ رکھنے سے یہود سے مشابہت پیدا نہ ہو جائے۔‘‘

باقی نو اور گیارہویں میں سے ایک تاریخ کا تعین کرنا کسی روایت سے واضح نہیں جب کہ دسویں تاریخ کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے اس کو کسی صورت ترک نہیں کیا جا سکتا۔ نیز دو روزے رکھنے کی تصریح پہلے ہوچکی اور جن احادیث میں اس کے لیے لفظ ترک استعمال ہوا ہے۔ اس سے مقصود صرف وجوب کا ترک ہے۔ استحباب کا نہیں۔ اور پھر دو روزے رکھنے کی تصریح ’’مسند احمد‘‘ کی سابقہ روایت کے علاوہ طحاوی اور بیہقی میں ابن عباس رضی اللہ عنہما  سے ماثور ہے:

’صُومُوا التَّاسِعَ وَالْعَاشِرَ وَخَالِفُوا الْیَہُودَ ۔‘ (سنن الترمذی،بَابُ مَا جَاء َ عَاشُورَاء ُ أَیُّ یَوْمٍ ،رقم:۷۵۵، السنن الکبریٰ للبیہقی،بَابُ صَوْمِ یَوْمِ التَّاسِعِ، رقم:۸۴۰۴)

یعنی’’ یہود کی مخالفت کرو۔ نویں اور دسویں کا روزہ رکھو۔‘‘

صاحب ’’المرعاۃ‘‘ فرماتے ہیں: اس سے’’صحیح مسلم‘‘میں وارد ابن عباس رضی اللہ عنہما  کی روایت کی وضاحت ہوجاتی ہے۔ اس جواب کی طرف بیہقی کا رجحان ہے۔(۲۷۱/۳)

پھر علامہ ابن قیم رحمہ اللہ  سے نقل کرتے ہیں۔ صرف نویں کا روزہ رکھنے کا وہ قائل ہے جس کا فہم آثار کو سمجھنے اور الفاظِ حدیث اور اس کے طرق کا تتبع کرنے سے قاصر ہے۔ یہ بات لغت اور شرع کے اعتبار سے بعید ہے۔ (المرعاۃ:)۲۷۲/۳

پھر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:

’ وَ عِنْدِی مَرَاتِب صَوْم عَاشُوْرَاءِ الثَّلَاث هٰکَذَا أَدْنَاهَا أَن یَّصُوْمَ الْعَاشِر فَقَطْ، وَ فَوْقَه أَن یَّصُوْمَ الحَادِی عَشَرَ مَعَهٗ وَفَوْقَهٗ أَن یَّصُومَ التَّاسِعَ وَالعَاشِرَ، وَإِنَّمََا جَعَلْتُ هٰذِهِ فَوْقَ الْمَوْتَیْتَیْنِ الأَوْلَیَیْنِ لِکَثْرَةِ الْاَاحَادِیْثِ فِیْهَا وَاللّٰهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔‘ (۲۷۳/۳)

مزید تفصیل کے لیے مرعاۃ المفاتیح کے مشارٌ الیہ مقام کو ملاحظہ فرمائیں۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الصوم:صفحہ:242

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ