سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(243) دن کو کھانے پینے کے بعد نفلی روزہ کی نیت کرنا

  • 25358
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-16
  • مشاہدات : 813

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا نفلی روزہ دن میں کسی بھی وقت رکھا جا سکتا ہے تو کیا اس کے لیے یہ شرط ہے کہ اس نے صبح(سحری) سے کوئی چیز نہ کھائی ہو نہ پانی کا گھونٹ نہ کوئی اور چھوٹی موٹی چیز کھائی ہو۔ یہاں ایک آدمی نے کہا کہ دن میںنفلی روزہ رکھنے والے کے لیے یہ شرط ہے کہ اس نے سحری سے لے کر اس وقت تک(جس سے روزہ رکھ رہا ہے) کچھ نہ کھایا پیا ہو۔ جب کہ میں نے اُسے کہا کہ یہ شرط نہیں ہے۔ میں نے اُسے بخاری و مسلم کی حدیث پیش کی جس میں حضرت ربیع بنت معوذ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے عاشورہ کی صبح انصار کی بستیوں کی طرف پیغام بھجوایا کہ جس شخص نے روزہ رکھا ہے وہ اپناروزہ رکھ لے۔

اب جنھوں نے روزہ سحری کے وقت رکھ لیا ہے۔ وہ تو صحیح ہوا۔ اور جنھوں نے نہیں رکھا۔ ان میں یہ احتمال ہے کہ انھوں نے کچھ چیز کھالی ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ آپﷺ کے حکم ملنے تک کچھ نہ کھایا پیا ہو۔

سوال یہ ہے کہ آیا دن میں نفلی روزہ رکھنے کی یہ شرط ہے کہ اس نے سحری سے کوئی چیز نہ کھائی ہو۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں اور اگر اس نے کوئی چیز کھالی ہے تو اس کا روزہ نہیں۔ بَیِّنُوْا تُوجرُوْا۔ (تلمیذکم اعجاز احمد خطیب جامع مسجد اہل حدیث کدھر تحصیل بھلوال ضلع گجرات) ( ۲۳ اکتوبر۱۹۹۲ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

روزہ کی تعریف میں یہ بات شامل ہے کہ انسان طلوع صبح صادق سے لے کر غروب شمس تک مفطرات سے رک جائے۔ اس تعریف کا اطلاق عام ہے روزہ چاہے فرضی ہو۔ یا نفلی، البتہ نفلی روزے کے لیے شریعت میں اتنی رخصت موجود ہے کہ اس کی نیت دن کے وقت بھی ہو سکتی ہے لیکن اس کے لیے بھی فرض روزے کی طرح ضروری ہے کہ صبح سے کچھ نہ کھایا پیا ہو۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما  سے مروی ہے:

’ أَنَّهُ کَانَ یُصْبِحُ حَتَّی یُظْهِرَ ثُمَّ یَقُولُ وَاللَّهِ لَقَدْ أَصْبَحْتُ وَمَا أُرِیدُ الصَّوْمَ وَمَا أَکَلْتُ مِنْ طَعَامٍ وَلَا شَرَابٍ مُنْذُ الْیَوْمِ وَلَأَصُومَنَّ یَوْمِی هَذَا۔ (فتح الباری، ج:۴ ،ص:۱۴۱)

اور جہاں تک تعلق ہے بعض روایات کا جن میں دن کے بقیہ حصے پر روزے کا اطلاق ہوا ہے۔ سو یہ مجازی امر ہے۔ یعنی محض صورۃً اس کو روزہ قرار دیا گیا ہے، امر واقعہ اس طرح نہیں۔

فقیہ ابن قدامہ فرماتے ہیں:

’وَإِمْسَاكُ بَقِیَّةِ الْیَوْمِ بَعْدَ الْأَکْلِ لَیْسَ بِصِیَامٍ شَرْعِیٍّ، وَإِنَّمَا سَمَّاهُ صِیَامًا تَجَوُّزًا(المغنی،ج:۳،ص:۲۳)

اور اگر کوئی شخص کھانے پینے کے بعد دن کے بعض حصے کا روزہ رکھ لے تو وہ اپنی نیت کے اعتبار سے ماجور ضرور ہے لیکن تکمیلی اجر کا مساہم نہیں ہوگا۔(مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، فتح الباری ، بَابُ اِذَا نَوَی بِالنَّھَارِ صَوْمًا:ج:۴،ص:۱۴۱۔ اور  المغنی:ج:۳،ص:۲۳۔۲۴)

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الصوم:صفحہ:240

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ