السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایسے ہی روزے کا مسئلہ ہے کہ میت کی طرف سے روزے رکھے جا سکتے ہیں یا کہ نہیں۔ یہ بات یاد رہے کہ اس نے وصیت نہیں کی۔ ( محمد نصر اللہ گوندلانوالہ،تحصیل و ضلع گوجرانوالہ) (۶ نومبر۱۹۹۲ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
میت کی طرف سے روزے رکھے جا سکتے ہیں۔ حدیث میں ہے:
’ مَنْ مَاتَ وَ عَلَیْهِ صِیَامٌ صَامَ عَنْهُ وَلِیُّهُ ‘متفق علیہ،(صحیح البخاری،بَابُ مَنْ مَاتَ وَعَلَیْهِ صَوْمٌ،رقم:۱۹۵۲، صحیح مسلم،بَابُ قَضَاء ِ الصِّیَامِ عَنِ الْمَیِّتِ،رقم:۱۱۴۷)
’’یعنی جو شخص فوت ہو جائے ، اس کے ذمہ روزے ہوں تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھے ۔‘‘
دوسری روایت میں ہے: ’ صُوْمِیْ عَنْهَا ‘(صحیح مسلم،بَابُ قَضَاء ِ الصِّیَامِ عَنِ الْمَیِّتِ،رقم:۱۱۴۹)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب