سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(235) سفر میں روزہ نہ رکھنا کیسا ہے ؟

  • 25350
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 646

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک آدمی بسلسلہ ملازمت روزانہ ۷۰ میل کا سفر کرتا ہے اور وہ رمضان کے روزے نہیں رکھتا۔ چھٹی کے روز روزہ رکھتا ہے اور کہتا ہے کہ سفر میں روزہ رکھنا جائز نہیں۔ا ور جو روزے اُس نے نہیں رکھے اور چھٹی کے روز روزہ رکھ کر وہ پورے کر رہا ہے کیا اس کا ایسا کرنا ازروئے کتاب و سنت درست ہے یا نہیں؟(سائل عبدالرشید عراقی) (۱۷ جولائی ۱۹۹۸ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سفر میں روزہ نہ رکھنے کا صرف جواز ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:

’فَالْحَاصِلُ أَنَّ الصَّوْمَ لِمَنْ قَوِیَ عَلَیْهِ أَفْضَلُ مِنَ الْفِطْرِ وَالْفِطْرُ لِمَنْ شَقَّ عَلَیْهِ الصَّوْمُ أَوْ أَعْرَضَ عَنْ قَبُولِ الرُّخْصَةِ أَفْضَلُ مِنَ الصَّوْمِ وَأَنَّ مَنْ لَمْ یَتَحَقَّقِ الْمَشَقَّةَ یُخَیَّرُ بَیْنَ الصَّوْمِ وَالْفِطْرِ ۔‘ (فتح الباری:۱۸۳/۴)

’’جملہ دلائل کا حاصل یہ ہے کہ بحالت ِ سفر جس میں روزہ کی طاقت ہو اس کے لیے روزہ رکھنا افضل ہے۔ اور جسے تکلیف ہو یا رخصت قبول کرنے سے منہ پھیرے اسے افطار کرنا چاہیے اور عدمِ تکلیف کی صورت میں دونوں طرح اختیار ہے۔ ‘‘

موصوف کا موقف درست نہیں۔ بحالت ِ سفر نبیﷺاور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  سے روزہ رکھنا ثابت ہے۔ فرمایا:

’ وَمَا فِینَا صَائِمٌ إِلَّا مَا کَانَ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَابْنِ رَوَاحَةَ۔‘(صحیح البخاری،بَابُ إِذَا صَامَ أَیَّامًا مِنْ رَمَضَانَ ثُمَّ سَافَرَ،رقم:۱۹۴۵)

’کُنَّا نُسَافِرُ مَعَ النَّبِیِّ ﷺ  فَلَمْ یَعِبِ الصَّائِمُ عَلَی المُفْطِرِ، وَلاَ المُفْطِرُ عَلَی الصَّائِمِ۔‘ (صحیح البخاری،بَابٌ: لَمْ یَعِبْ أَصْحَابُ النَّبِیِّ ﷺ بَعْضُهُمْ بَعْضًا فِی الصَّوْمِ وَالإِفْطَارِ،رقم:۱۹۴۷)

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الصوم:صفحہ:236

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ