السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
رمضان المبارک میں نیک عمل کا ثواب ستر درجے بڑھ جاتا ہے۔ کیا اسی طرح گناہ میں بھی اضافہ ہوتا ہے؟ اگر ہوتا ہے تو کیا یہ اس کی شانِ کریمی کے خلاف نہیں؟ اور رمضان کی برکات پر حرف نہیں آئے گا۔ مدلل تحریری فرمایا جائے۔ (ایک سائل) (۷ فروری ۱۹۹۷ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
رمضان میں نیکی کا اجر و ثواب ستر گناہ بڑھنے والی روایت سنداً اگرچہ ضعیف ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں بلا حساب تک جا پہنچی ہے۔ قرآنِ مجید میں ہے:
﴿ إِنَّما يُوَفَّى الصّـٰبِرونَ أَجرَهُم بِغَيرِ حِسابٍ ﴿١٠﴾... سورة الزمر
اہلِ تاویل و تفسیر نے صابرون کی تشریح روزہ داروں سے کی ہے۔ اور صحیح حدیث میں ہے:
’ إِلَّا الصَّوْمَ، فَإِنَّهُ لِی وَأَنَا أَجْزِی بِهِ ‘(صحیح مسلم،بَابُ فَضْلِ الصِّیَامِ،رقم:۱۱۵۱)
اور جہاں تک برائی کا تعلق ہے سو اس کے ارتکاب سے رمضان غیر رمضان میں اضافہ نہیں ہوتا ہے۔ حدیث میں ہے:
’ فَإِنْ هُوَ هَمَّ بِهَا فَعَمِلَهَا کَتَبَهَا اللَّهُ لَهُ سَیِّئَةً وَاحِدَةً ‘(صحیح البخاری،بَابُ مَنْهَمَّ بِحَسَنَةٍ أَوْ بِسَیِّئَةٍ،رقم:۶۴۹۱)
’’یعنی بندہ اگر گناہ کا قصد کر کے برائی کر گزرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کے لیے صرف ایک برائی درج کرتا ہے ۔‘‘
اور قرآنِ کریم میں ہے:
﴿مَن جاءَ بِالحَسَنَةِ فَلَهُ عَشرُ أَمثالِها وَمَن جاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلا يُجزىٰ إِلّا مِثلَها وَهُم لا يُظلَمونَ ﴿١٦٠﴾... سورة الانعام
’’ جو کوئی (اﷲ کے حضور) نیکی لے کر آئے گا اس کو بیس دس نیکیاں ملیں گی اور جو برائی لائے گا اسے سزا ویسی ہی ملے گی۔‘‘
اور الاعرج کی روایت میں ہے:
’فَاکْتُبُوهَا لَهُ بِمِثْلِهَا‘(صحیح مسلم،بَابُ إِذَا هَمَّ الْعَبْدُ بِحَسَنَةٍ کُتِبَتْ، وَإِذَا هَمَّ بِسَیِّئَةٍ لَمْ تُکْتَبْ،رقم:۱۲۹)
اور صحیح ابو ذر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے:
’فَجَزَاؤُهُ سَیِّئَةٌ مِثْلُهَا أَوْ أَغْفِرُ‘ (صحیح مسلم،بَابُ فَضْلِ الذِّکْرِ وَالدُّعَاء ِ وَالتَّقَرُّبِ إِلَی اللهِ تَعَالَی،رقم:۲۶۸۷)
اور’’صحیح مسلم‘‘ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کے اخیر میں الفاظ یوں ہیں: ’أَوْ یَمْحُوْھَا‘ مفہوم اس کا یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنے فضل و کرم یا توبہ و استغفار یا اچھا عمل کرنے سے برائی کو مٹا دیتا ہے لیکن پہلا معنی حدیث ابوذر رضی اللہ عنہ کے قریب تر ہے۔
حافظ ابن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’ وَیُسْتَفَادُ مِنَ التَّأْکِیدِ بِقَوْلِهِ وَاحِدَةً أَنَّ السَّیِّئَةَ لَا تُضَاعَفُ کَمَا تُضَاعَفُ الْحَسَنَةُ وَهُوَ عَلَی وَفْقِ قَوْلِهِ تَعَالَی فَلَا یُجْزَی إِلَّا مِثْلَهَا۔‘(فتح الباری،ج:۱۱،ص:۳۲۸)
’’یعنی سَیّئۃ کے ساتھ واحدۃ کی تاکید سے یہ بات مستفاد ہے کہ برائی میں اضافہ نہیں ہوتا جس طرح کہ نیکی میں کئی گناہ اضافہ ہوتا ہے اور یہ اﷲ کے فرمان﴿فَلَا یُجْزٰٓی اِلَّا مِثْلَهَا﴾ کے عین مطابق ہے۔‘‘
ابن عبد السّلام نے اپنی ’’امالی‘‘ میں کہا :تاکید کا فائدہ یہ ہے کہ یہاں اس شخص کا وہم رفع کرنا مقصود ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ انسان جب برائی کرتا ہے تو برا عمل اس پر لکھ دیا جاتا ہے اور قصدِ برائی کا بدی میں مزید اضافہ کا موجب ہو گا۔ درآں حالیکہ معاملہ اس طرح نہیں برائی صرف ایک ہی لکھی جاتی ہے۔ ہاں البتہ بعض اہلِ علم نے حرم مکی میں برائی کے ارتکاب کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔
اسحاق بن منصور نے کہا میں نے امام احمد رحمہ اللہ سے دریافت کیا۔
’هَلْ وَرَدَ فِی شَیْئٍ مِنَ الْحَدِیثِ أَنَّ السَّیِّئَةَ تُکْتَبُ بِأَکْثَرَ مِنْ وَاحِدَةٍ قَالَ لَا مَا سَمِعْتُ إِلَّا بِمَکَّةَ لِتَعْظِیمٍ ۔‘( فتح الباری،ج:۱۱،ص:۳۲۹)
’’کیا کسی حدیث میں وارد ہے کہ برائی بھی ایک سے زیادہ لکھی جاتی ہے۔ جواباً فرمایا: میں نے یہ بات کسی سے نہیں سنی۔ ہاں البتہ حرم کی تعظیم و احترام کی خاطر مکہ میں اضافہ ہو جاتا ہے۔‘‘
تا ہم جمہور زمان و مکان کے اعتبار سے تعمیم کے قائل ہیں۔ لیکن بعض دفعہ بڑھائی میں تفاوت پایا جاتا ہے۔اس پر یہ اعتراض وارد نہیں ہو سکتا کہ قرآن میں ازواج مطہرات کے بارے میں تو تضعیفِ عذاب کی نص موجود ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿مَن يَأتِ مِنكُنَّ بِفـٰحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ يُضـٰعَف لَهَا العَذابُ ضِعفَينِ...﴿٣٠﴾... سورة الاحزاب
’’تم سے جو کوئی صریح نا شائستہ الفاظ کہہ کر رسولﷺ کو ایذا دینے کی حرکت کرے گی اس کو دگنی سزا دی جائے گی۔‘‘
تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ نبیﷺ کے حق کی عظمت کی بناء پر ہے۔ کیونکہ ازواج مطہرات سے فحش گوئی وقوع ایک زائد سمت کا متقاضی ہے وہ ہے نبیﷺ کی ذاتِ گرامی کو اذیّت دینا۔(فتح الباری: ۱۱/ ۳۲۸۔ ۳۲۹)
اس ساری بحث کا حاصل یہ ہے کہ برائی صرف ایک ہی برائی رہتی ہے اس میں اضافہ نہیں ہوتا۔ چاہے موسم رمضان ہو یا غیر، لیکن ایامِ مبارکہ میں اس کے وقوع سے اس کی شناعت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اسی وجہ سے اس پر سختی سے نکیر کی گئی ہے یا ’وَیَا بَاغِیَ الشَّرِّ أَقْصِرْ‘(سنن ابن ماجه،بَابُ مَا جَاء َ فِی فَضْلِ شَهْرِ رَمَضَانَ،رقم:۱۶۴۲،سنن الترمذی،بَابُ مَا جَاء َ فِی فَضْلِ شَهْرِ رَمَضَانَ،رقم:۶۸۲) میں اسی بات کی طرف اشارہ ہے۔ ’ وَ قَالَ التِّرْمَذِیْ هٰذَا حَدِیْثٌ غَرِیْبٌ‘ دوسری حدیث میں ہے:
’مَنْ لَمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالعَمَلَ بِهِ، فَلَیْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ فِی أَنْ یَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ۔‘ (صحیح البخاری ،بَابُ مَنْ لَمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ، وَالعَمَلَ بِهِ فِی الصَّوْمِ،رقم:۱۹۰۳)
اُمتِ مرحومہ پر اﷲ رب العزت کا عظیم احسان ہے کہ ایک ایک نیکی میں بے پناہ اضافہ کر دیا۔ جب کہ بدی میں تعدد کے بجائے اسے اپنی جگہ پررکھ کر توبہ وانابت کی دعوتِ عام دی تا کہ گنہگار سیاہ کار بند ے اس کے آغوش رحمت میں داخل ہو کر بہشت کے وارث بن سکیں۔ اسی بناء پر ترغیب دی گئی ہے کہ
’ مَنْ قَامَ لَیْلَةَ القَدْرِ إِیمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ، وَمَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِیمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ ۔‘ (صحیح البخاری کتاب الصیام،بَابُ مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِیمَانًا وَاحْتِسَابًا وَنِیَّةً،رقم: ۱۹۰۱)
اور جب اس کی مرضی ہو تو حقوق العباد کو بھی معاف فرما کر ظالم و مظلوم اور قاتل و مقتول دونوں کو خوش کر دیتا ہے۔
﴿لا يُسـَٔلُ عَمّا يَفعَلُ وَهُم يُسـَٔلونَ ﴿٢٣﴾... سورة الأنبياء
﴿ إِنَّ اللَّهَ يَغفِرُ الذُّنوبَ جَميعًا ...﴿٥٣﴾... سورة الزمر
لہٰذا یہ اعتقاد رکھنا کہ رمضان المبارک میں نیکی کی طرح برائی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ مذکورہ بالا شرعی نصوص کے منافی نظریہ ہے۔
اﷲ رب العزت جملہ مسلمانوں کو برکاتِ رمضان سے مستفیدہونے کی توفیق بخشے۔ (آمین)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب