سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(227) رؤیت ہلال کتنے فاصلہ پر معتبر ہے؟

  • 25342
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 953

سوال

(227) رؤیت ہلال کتنے فاصلہ پر معتبر ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

چاند دکا دیکھنا کتنے فاصلے تک معتبر ہے۔ جس میںشک نہ ہو ؟ کیونکہ سنا ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ جو شک کا روزہ رکھتا ہے وہ میرا نافرمان ہے۔ اس لیے آپ وہ صورت بیان فرمائیں جس میں یقین ہو، شبہ نہ ہو۔(سائل)(۱۳ جنوری ۱۹۹۵)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

باعتبار مسافت لوگوں کے مختلف اقوال ہیں۔ ۴۸۔ ۷۲ ۔ ۴۸۰میل۔ صحیح بات یہ ہے۔ طے شدہ مسافت یا میلوں کے حساب سے چاند کی رؤیت کااعتبار کرنا کتاب و سنت سے ثابت نہیں۔ نبی اکرمﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:’

صُوْمُوْا لِرُؤیَتِهٖ وَافْطِرُوا لِرؤیَتِهٖ ‘(صحیح البخاری،بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ ﷺإِذَا رَأَیْتُمُ الهِلاَلَ …الخ،رقم: ۱۹۰۹،صحیح مسلم،رقم:۱۰۸۱)

’’چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور دیکھ کر افطار کرو۔‘‘

دوسری روایت میں ہے کہ چاند اگر پوشیدہ رہے یعنی بادل یا غبار کی وجہ سے نظر نہ آسکے تو پھر شعبان کی گنتی تیس روز پورے کرلو۔ اس حدیث کا مفہوم یہ نہیں کہ سب کا دیکھنا ضروری ہے بلکہ اعرابی کے قصہ کسے صاف معلوم ہوتا ہے کہ بعض کا دیکھنا ہی کافی ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے ، مقامی لوگوںکی رؤیت ضروری نہیں بلکہ بیرونی اندرونِ ملک رؤیت بھی کافی ہو سکتی ہے غالباً اس بنا ء پر ابن عباس رضی اللہ عنہما  نے معاویہ کی شامی رؤیت کو نقابلِ اعتبار سمجھا ہے جب کہ مطلع کے حساب سے مدینہ اور دمشق کا بہت کم فرق ہے ، امام شوکانی نے ’’نیل الاوطار‘‘ میں اس بات کو ترجیح دی ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا ممکن ہے کہ اندرونِ ملک شہادتوں پر اعتماد کرکے روزہ رکھنا شکی روزہ نہ ہو گا۔ رہا سرحدوں کا معاملہ تو بسبب قرب کے وہ ایک ہی شمار ہو گا۔ جب کہ مقام دوسرے مقام سے اتنے بعد میں واقع ہو کہ رؤیت ہلال میں فرق پڑ سکتا ہو، ایسی صورت میں ایک جگہ کی رؤیت دوسری جگہ قابل اعتبار نہ ہو گی۔ دراصل اس امر کی بنیاد مدارِ شمس و قمر پر ہے۔ اسی بناء پر بعض ایک دوسرے سے دُور دو شہروں میں مطلع کا فرق کم ہوتا ہے اور قریبی میں زیادہ اہل علم نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اہل مشرق کی رؤیت اہل مغرب کے لیے معتبر ہے جب کہ اس کا معکوس ، ناقابلِ اعتبار ہے۔ بطورِ مثال دو بھائیوں میں سے ایک مشرق میں ہے،د وسرا مغرب میں۔ دونوں زوال کے وقت فوت ہوتے ہیں۔ اندریں صورت مغربی، مشرقی کا وارث ہوگا اس لیے کہ اس کے علاقہ کا زوال بعد میں ہوا ہے۔ اسی طرح یہ بھی بدیہی امر ہے کہ مکہ اور مدینہ اور یہاں کے اعتبار سے نمازوں کے اوقات ، ایام حج، عید الفطر اور عید الاضحی کا تفاوت اسی فرق پر مبنی ہے۔

میری ناقص رائے میں مطلع کے فرق میں اگر قریب دو نمازوں مثلاً ظہر، عصر، اور مغرب کے اوقات کا لحاظ کرکے مطلع کا فرق کر لیا جائے تو اُمی امت کے لیے انسب اور قرینِ قیاس معلوم ہوتا ہے کیونکہ نمازوں کے وقتوں کی بناء اختلافِ مطالع پر ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الصوم:صفحہ:229

محدث فتویٰ

تبصرے