السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے علاقے میں یہ رسم عام ہے کہ اگر کوئی فوت ہو جائے تو تیسرے دن قل اور اس کے بعد ہر جمعرات کو ختم پڑھایا جاتا ہے اور آخر میں رسم چہلم ادا کرکے سال تک مرنے والا بھلا دیا جاتا ہے۔ آپ بتائیں ایسی محفل میں جانا کیسا ہے؟ اور یہ رسم حدیث میں بھی موجود ہے یا نہیں؟ (محمد یوسف۔ضلع ایبٹ آباد) (۹ جولائی ۱۹۹۹ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
وفات کے تیسرے دن اور پھر ہر جمعرات کو ختم اور اخیر میں رسمِ چہلم کے انعقاد کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں۔ بلکہ عیار لوگوں نے کھانے پینے کا ڈھب بنا رکھا ہے۔ ہندوؤں کی پیروی میں یہ رسومات ایجاد ہوئی ہیں۔ منوسمرتی میں ان رسموں کا ذکر ملتا ہے۔ نبی کریمﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
’ مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا هٰذَا مَا لَیْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ ‘(صحیح البخاری،بَابُ إِذَا اصْطَلَحُوا عَلَی صُلْحِ جَوْرٍ فَالصُّلْحُ مَرْدُودٌ،رقم:۲۶۹۷)
’’ یعنی جو دین میں اضافہ کرے وہ مردود ہے۔‘‘
جب ان مجالس کا منعقد کرنا خلافِ شرع ہے تو ان میں شرکت کرنا بھی ناجائز ہے۔
ھذا ما عندی والله أعلم بالصواب