السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کسی شخص کی وفات پر شرعاً کتنے دن سوگ منایا جاسکتا ہے ؟ ہمارے ہاں دیہات میںعام طور پر وفات کے تیسرے دن ظہر کی نماز کے بعد دعا کی جاتی ہے ، اس میں دیگر اقرباء و اعزہ کی شرکت لازمی ہوتی ہے۔ بعد از خصوصی دعا سوگ ختم کردیا جاتا ہے۔ کیا ایسی دعا جو خاص طور پر ہو، تیسرے دن ہو ، ظہر کی نماز کے بعد ہو ، اس میں شرکت ِ اقرباء لازمی ہو، کا تعین قرآن و سنت سے ثابت ہے؟(سائل محمد بلال ، محمد عیسیٰ کمبوہ) (۲۸ ستمبر ۲۰۰۱ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سوگ کا تعلق صرف عورتوں سے ہے جس عورت کا شوہر فوت ہو جائے اس کی عدت چار ماہ دس دن ہے اور باقی اعزہ و اقارب کا سوگ صرف تین دن ہے لیکن مردوں کے لیے ترکِ زینت کی کوئی پابندی نہیں اظہارِ افسوس اور تعزیت کے لیے بھی کوئی وقت مقرر نہیں کسی وقت بھی ہو سکتی ہے۔ تین دن کے لیے اہل میت کے ہاں جمع ہو کر بیٹھے رہنے کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں، بلکہ حضرت جریر بن عبد اللہ فرماتے ہیں، اہل میت کے ہاں اجتماع کو ہم بین (نوحہ) شمار کرتے تھے(جو شرعاً ممنوع ہے) میت کے لیے دعا کسی جگہ اور کسی وقت بھی ہو سکتی ہے اس کے لیے کوئی تعین نہیں۔ سو ان میں جن امور کی طرف اشارہ کیا گیا ہے یہ سب رسومات ہیں ہر صورت اس سے اجتناب ضروری ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب