السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
راجیو گاندھی کے قتل کی خبر سن کر ایک تعلیم یافتہ شخص کے منہ سے بے ساختہ ’’ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ‘‘ نکلا۔ خبر سنانے والے نے اعتراض کیا کسی غیر مسلم کی موت پر یہ قرآنی جملہ نہیں پڑھنا چاہیے۔ محلے کے خطیب سے یہ مسئلہ دریافت کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن میری تسلی نہیں ہوئی۔ کیوں کہ قرآن پاک میں جہاں یہ جملہ آیا ہے۔ اس کے سیاق و سباق میں صابروں، اور ہدایت یافتہ لوگوں کا ذکر ہے۔ ظاہر ہے کہ صبر اور ہدایت یافتگی ایک مسلم ہی کا شعار ہو سکتا ہے ۔ بہرحال آپ جواب دیتے وقت صرف منطقی اور قرآنی دلائل ہی نہ دیں بلکہ یہ بھی فرمائیں کہ ہمارے ہادیٔ برحق ؐ اور دیگر اسلاف گرامی کی اس سلسلے میں کیا روش تھی؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ایک کافر، مشرک کی موت پر ’’ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ‘‘ ، یا افسوس کا اظہار نہیں ہونا چاہیے تھا۔ سبقت لسانی سے خطا ہو گئی ہے۔ تو استغفر اللہ پڑھنا چاہیے۔ محلہ کے خطیب صاحب سے سہو ہوا ہے۔ قرآن مجید نے فرعون اور اس کی قوم کی ہلاکت کے تناظر میں بیان فرمایا ہیـ:
﴿فَما بَكَت عَلَيهِمُ السَّماءُ وَالأَرضُ وَما كانوا مُنظَرينَ ﴿٢٩﴾... سورة الدخان
’’پھر ان پر نہ تو آسمان اور زمین کو رونا آیا اور نہ ان کو مہلت ہی دی گئی ۔‘‘
پھر مومن کے لیے لائق ہے کہ کافر کی موت پر افسوس کا اظہار کرے۔ ہر گز نہیں۔ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انھوں نے فرمایا:
’ قَالَ أَبُو لَهَبٍ عَلَیْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ : تَبًّا لَكَ سَائِرَ الیَوْمِ فَنَزَلَتْ:﴿تَبَّتْ یَدَا أَبِی لَہَبٍ وَتَبَّ﴾
’’یعنی ابو لہب نے اس پر اللہ کی لعنت ہو، نبیﷺ کو کہا تھا: تَبًّا لَكَ سَائِرَ الیَوْمِ ‘‘
اس سے معلوم ہوا کافر کے فقدان پر افسوس کی بجائے اظہار ناراضی ہونا چاہیے۔
دوسری روایت میں ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہامیں نے نبیﷺ سے عرض کی آپ کا گمراہ چچا ابو طالب مر گیا۔ فرمایا جا اسے دفن کردے۔ کوئی نیا کام مت کرنا۔ حتی کہ تو میرے پاس آئے۔ پس میں گیا۔ اس کو دفن کرکے واپس آیا تو آپﷺ نے مجھے غسل کا حکم دیا اور میرے لیے دعا کی۔ (سنن ابی داؤد،بَابُ الرَّجُلِ یَمُوتُ لَہُ قَرَابَۃٌ مُشْرِکٌ،رقم:۳۲۱۴)
اگر کافر کی موت پر اظہارِ افسوس روا ہوتا تو رسول اللہﷺ خواہ ادنیٰ سے ادنیٰ الفاظ میں کرتے۔ یہاں ضرور کرتے کیونکہ ابوطالب نے دنیاوی زندگی میں رسول اللہﷺ کا بھرپور ساتھ دیا۔ ابو طالب ہی نے رسول اللہﷺکو کہا تھا۔
فاصدع بامرك ما علیك عضاضةحتی اُوسّد فی التراب دفینا
یعنی جب تک قبر کی مٹی میرا تکیہ نہیں بن جاتی لوگوں تک اپنا پیغام دل کھول کر پہنچا دیجیے۔‘‘
اس وقت کلمہ خیر کے نطق سے رسول اللہﷺ کی مکمل خاموشی عدمِ جواز کی دلیل ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب