سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(197) تین دن کے بعد تعزیت کا حکم

  • 25312
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 544

سوال

(197) تین دن کے بعد تعزیت کا حکم

ا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

فوت شدہ آدمی کے گھر تین دن کے بعد تعزیت کی خاطر جانا درست ہے یا نہیں ؟ (السائل ثناء اللہ محمد سموں منگیریہ ضلع بدین سندھ) (۱۱ ستمبر۱۹۹۲ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تعزیت کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں ممکنہ حد تک قریب ترین فرصت میں اظہارِ تعزیت ہونا چاہیے۔ جس طرح کہ رسول اللہﷺ نے اپنی بیٹی کے بچے کی وفات پر بایں الفاظ تعزیت فرمائی :

’ إِنَّ لِلَّهِ مَا أَخَذَ وَلَهُ مَا أَعْطَی، وَکُلُّ شَیْئٍ عِنْدَهُ بِأَجَلٍ مُسَمًّی ‘(صحیح البخاری،بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَی: ﴿قُلِ ادْعُوا اللَّهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَنَ …الخ،رقم: ۷۳۷۷)

مزید علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’ تَعْزِیَةُ أَهْلِ الْمَیِّتِ، وَلَمْ یَکُنْ مِنْ هَدْیِهِ أَنْ یَجْتَمِعَ لِلْعَزَاء ِ، وَیَقْرَأَ لَهُ الْقُرْآنَ، لَا عِنْدَ قَبْرِهِ وَلَا غَیْرِهِ، وَکُلُّ هَذَا بِدْعَةٌ حَادِثَةٌ مَکْرُوهَةٌ ۔

وَکَانَ مِنْ هَدْیِهِ: السُّکُونُ وَالرِّضَی بِقَضَاء ِ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَالِاسْتِرْجَاعُ، وَیَبْرَأُ مِمَّنْ خَرَقَ لِأَجْلِ الْمُصِیبَةِ ثِیَابَهُ، أَوْ رَفَعَ صَوْتَهُ بِالنَّدْبِ وَالنِّیَاحَةِ، أَوْ حَلَقَ لَهَا شَعْرَهُ ۔

وَکَانَ مِنْ هَدْیِهِ ۔صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ۔ أَنَّ أَهْلَ الْمَیِّتِ لَا یَتَکَلَّفُونَ الطَّعَامَ لِلنَّاسِ، بَلْ أَمَرَ أَنْ یَصْنَعَ النَّاسُ لَهُمْ طَعَامًا یُرْسِلُونَهُ إِلَیْهِمْ، وَهَذَا مِنْ أَعْظَمِ مَکَارِمِ الْأَخْلَاقِ وَالشِّیَمِ، وَالْحَمْلِ عَنْ أَهْلِ الْمَیِّتِ، فَإِنَّهُمْ فِی شُغْلٍ بِمُصَابِهِمْ عَنْ إِطْعَامِ النَّاسِ.

وَکَانَ مِنْ هَدْیِهِ ۔صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ۔ تَرْكُ نَعْیِ الْمَیِّتِ، بَلْ کَانَ یَنْهَی عَنْهُ وَیَقُولُ: (هُوَ مِنْ عَمَلِ الْجَاهِلِیَّةِ)، وَقَدْ کَرِهَ حذیفة أَنْ یُعْلِمَ بِهِ أَهْلُهُ النَّاسَ إِذَا مَاتَ، وَقَالَ: (أَخَافُ أَنْ یَکُونَ مِنَ النَّعْیِ)۔(زاد المعاد،الجزء الاوّل، ص:۱۴۶)

یعنی ’’تعزیت کے لیے اہل میت کے ہاں جمع ہونا رسول اللہﷺ کا طریقہ نہیں تھا اور نہ میت کے لیے

قرآن خوانی کرنا قبر کے پاس اور نہ اس کے علاوہ۔ یہ جملہ امورِ خود ساختہ بدعات مکروہ میں شامل ہیں۔ آپﷺ کا طریقہ کار یہ تھا کہ ایسے موقع پر خاموشی اختیار کرتے اور اللہ کی قضا و قدر کے ساتھ رضا ء کا اظہار فرماتے۔ اللہ کی حمد وثنا کرتے۔ ’’اِنَّا لِلّٰہ‘‘ پڑھتے۔جو آدمی مصیبت کے موقع پر کپڑے پھاڑتا یا نوحہ کرتا یا سرمنڈاتا اس سے بیزاری کا اظہار کرتے اور آپﷺ کی سنت سے یہ بھی ہے کہ اہل میت لوگوں کو کھانا کھلانے کی تکلیف نہ کریں۔ بلکہ لوگ کھانا تیار کرکے ان کے پاس بھیجیں۔ یہ بات آپ کے عظیم اخلاق کی نشاندہی کرتی ہے۔ اہل میت کی پریشانی کی بنا پر لوگوں کوکھانا کھلانے کا بوجھ ان سے ہلکا کردیا ہے۔ اور پھر آپﷺکا طریقہ یہ بھی تھا کہ کسی کی موت پر واویلا اور تشہیر عام کرنے سے روکتے، فرماتے یہ جاہلیت کے امور سے ہے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ  نے مکروہ سمجھا کہ ان کے اہل خانہ ان کی وفات کی کسی کو اطلاع کریں۔ کہا مجھے اس بات کا خوف ہے کہ کہیں یہ ’’نعی‘‘ (موت کی تشہیر) میں شمار نہ ہو۔‘‘

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الجنائز:صفحہ:214

محدث فتویٰ

تبصرے