السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بعض حضرات کہتے ہیں کہ مردے سنتے ہیں اور ہر طرح کا ثواب اُن کو پہنچتا ہے۔ اس سلسلے میں وہ یہ واقعہ سناتے ہیں کہ نبی ﷺ نے غزوۂ بدر کے بعد ابوجہل کی لاش کنویں میں پھنکوا کر باہر کھڑے ہو کر درس دیا کہ تم اگر اسلام کی مخالفت نہ کرتے تو شاید تمہارا یہ انجام نہ ہوتا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے تعجب کیا کہ پیارے آقا کیا یہ آپ کی بات سن رہا ہے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ بے شک یہ تم سے زیادہ سن رہا ہے۔ کیا یہ واقعہ درست ہے یا من گھڑت؟ تفصیل سے اس سوال کا جواب دیں۔ (سائل)(۲۴ اپریل ۲۰۰۹ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سماع موتی کا مشار الیہ قصہ’’صحیح بخاری‘‘مع فتح الباری (۷/ ۳۰۱) میں ہے لیکن یہ سماع خرق عادت تھا عام حالات میں مردے نہیں سنتے کیوں کہ مردہ بے جان کو کہتے ہیں اور بے جان میں سننے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ قرآنِ مجید میں ہے:
﴿ اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی﴾
آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے۔
علامہ ابن ہمام حنفی لکھتے ہیں:
’ هٰذَا عِنْد اَکْثَر مَشَائِخُنَا وَ هُوَ اَنَّ الْمَیّت لَا یَسْمَعُ عِنْدَهُمْ ۔‘ (فتح القدیر، کتاب الجنائز)
’’یعنی ہمارے اکثر مشائخ کا یہی موقف ہے کہ میت نہیں سنتی۔‘‘
اور ’’کافی شرح وافی‘‘ باب بیان احکام الیمین میں ہے:
’ وَالْمَقْصُوْدُ مِنَ الْکَلَامِ الْاِفْهَامِ وَ ذَا بِالْاِسْتِمَاعِ وَ ذَا لَا یَتَحَقَّقُ بَعْدَ الْمَوْتِ۔‘
’’یعنی مقصود کلام سے اپنا مافی الضمیر بتلانا سمجھانا ہے اور یہ سننے سے ہی ہوتا ہے جب کہ مرنے کے بعد سننا نہ ثابت اور نہ ممکن۔ ‘‘
موت کے بعد میت کے لیے دعا اور صدقہ یقینا مفید ہے لیکن دعا اور صدقہ کے لیے شرعاً کوئی وقت مقرر نہیں۔ ہمارے شیخ محدث روپڑی رحمہ اللہ کی کتاب ’’سماع موتٰی‘‘اس موضوع پر انتہائی مفید ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب