السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جب مُردوں کو سلام کہا جائے تو کیا وہ سنتے ہیں، اگر سنتے ہیں تو جواب دیتے ہیں یا نہیں؟(محمد اسماعیل عابد، موضع ڈاہر تحصیل دیپالپور ضلع اوکاڑا) (۲۵ستمبر۱۹۹۲ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کسی صحیح حدیث میں بوقت ِ سلام ،اموات کے سماع اور پھر جواب دینے کی تصریح موجود نہیں ہے بلکہ قرآنِ مجید میں نفی مصرح ہے۔
﴿ وَما أَنتَ بِمُسمِعٍ مَن فِى القُبورِ ﴿٢٢﴾... سورة الفاطر
’’اور تم ان کو جو قبروں میں مدفون ہیں نہیں سنا سکتے۔‘‘
دوسری جگہ ہے:
﴿لا تُسمِعُ المَوتىٰ...﴿٨٠﴾... سورة النمل
’’کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو(بات) نہیں سنا سکتے۔‘‘
نیز فرمایا:
﴿وَمَن أَضَلُّ مِمَّن يَدعوا مِن دونِ اللَّهِ مَن لا يَستَجيبُ لَهُ إِلىٰ يَومِ القِيـٰمَةِ وَهُم عَن دُعائِهِم غـٰفِلونَ ﴿٥﴾... سورة الاحقاف
’’اور اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہو سکتا ہے جو اللہ کے سوا ایسے کو پکارے جو قیامت تک اسے جواب نہ دے سکے۔‘‘
اگر کوئی کہے دعائیہ کلمات میں صیغۂ تخاطب و نداء کا تقاضا ہے کہ مُردوں کو سماعت حاصل ہو، سو اس اشکال کا جواب یوں ہے کہ عربی زبان کا اسلوب ہے کہ ما لا یعقل سے بسا اوقات معاملہ ذوی العقول جیسا کیا جاتا ہے جس طرح کہ ھلالی دعاء میں ہے:
’ یَا هلَالُ رَبِّیْ وَ رَبُّكَ اللّٰهُ ‘
اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حجرِ اسود سے مخاطب ہو کر فرمایا تھا:
’ اِنِّیْ لَاَعْلَمُ اِنَّكَ حَجَرٌ ‘(صحیح مسلم، کتاب الحج، باب استحباب تقبیل الحجر الاسود فی الطواف:۳۰۶۷)
اسی طرح یہاں بھی سمجھ لیں۔ فقہاء حنفیہ نے بے شمار نصوص میں مردوں کے عدم سماع کی تصریح کی ہے۔ بطورِ امثلہ چند ایک نمونے ملاحظہ فرمائیں۔ علامہ ابن الہمام ’’فتح القدیر‘‘ کتاب الجنائز میں فرماتے ہیں:
’ هُنَا عِنْدَ أَکْثَرِ مَشَایِخِنَا هُوَ أَنَّ الْمَیِّتَ لَا یَسْمَعُ عِنْدَهُمْ عَلَی مَا صَرَّحُوا بِهِ فِی کِتَابِ الْأَیْمَانِ فِی بَابِ الْیَمِینِ بِالضَّرْبِ ۔لَوْ حَلَفَ لَا یُکَلِّمُهُ فَکَلَّمَهُ مَیِّتًا لَا یَحْنَثُ ؛ لِأَنَّهَا تَنْعَقِدُ عَلَی مَا یُفْهَمُ، وَالْمَیِّتُ لَیْسَ کَذَلِكَ لِعَدْمِ السَّمَاعِ ۔
(قَوْلُهُ وَکَذَا الْکَلَامُ) یَعْنِی إذَا حَلَفَ لَا یُکَلِّمُهُ اقْتَصَرَ عَلَی الْحَیَاةِ، فَلَوْ کَلَّمَهُ بَعْدَ مَوْتِهِ لَا یَحْنَثُ لِأَنَّ الْمَقْصُودَ مِنْهُ الْإِفْهَامُ وَالْمَوْتُ یُنَافِیهِ؛ لِأَنَّهُ لَا یَسْمَعُ فَلَا یَفْهَمُ ۔ انتهی
اور ’’فصول فی علم الاصول‘‘ میں ہے:
’ لَوْ حَلَفَ لَا یُکَلِّمُ فُلَانًا وَ کَلَّمَهُ بَعْدَ الْمَوْتِ اَوْضَرَبَهُ بَعْدَ الْمَوْتِ لَا یَحْنثُ لِعَدْمِ مَعْنَی الْاِفْهَامِ وَالْاِیْلَامِ ‘
اور اصول الشاشی میں ہے:
’ مَنْ حَلَفَ لَا یُکَلِّمُ فُلَانًا فَکَلَّمَهُ بَعْدَ الْمَوْتِ لَا یَحْنث لِعَدْمِ الْاِسْمَاعِ ‘
اور تفسیر ’’جامع البیان‘‘ میں زیر آیت﴿وَ الْمَوْتٰی یَبْعَثُهُمُ اللّٰهُ﴾ ہے:
’ اَی الکُفَّارِ الَّذِیْنَ کَالْمَوْتٰی لَا یَسْمَعُوْنَ ‘
اور تفسیر’’جلالین‘‘ میں ہے:
’ اَی الْکُفَّارِ شَبَّهَهُمْ بِهِمْ فِیْ عَدْمِ السِّمَاعِ‘
اور بدر کے مقتولین سے نبیﷺ نے جو خطاب فرمایا تھا اس کا جواب بعض حنفیہ نے یوں دیا ہے:
’ وَ لَئِنْ ثَبَتَ فَهُوَ مُخْتَصٌ بِالنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ سَلَّمَ وَ یَجُوْزُ اَنْ یَّکُوْنَ ذٰلِكَ لِوَعْظِ الْاِحْیَاءِ لَا عَلٰی سَبِیْلِ الْخِطَابِ لِلْمَوْتٰی ‘
’’یعنی اگر یہ قصہ ثابت ہوجائے تو نبیﷺ کے ساتھ مخصوص ہو گا اور یہ بھی جائز ہے کہ مقصود اس سے زندہ لوگوں کو وعظ و نصیحت کرنا ہو مردوں کے لیے خطاب نہیں۔‘‘ ( فتاویٰ حدیث،ج:۵،ص:۴۴۴)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب