السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا قبروں والے ’اَلسَّلامُ عَلَیْکُمْ یَا اَھْلَ الْقُبُوْرِ…‘ سنتے ہیں اور جواب دیتے ہیں؟ اگر نہیں سنتے تو ’عَلَیْکُمْ‘ اور ’یَا اَھْلَ…‘ کا کیا مطلب ہو گا؟ اور حدیث میں ہے کہ مدفون اپنے دفنانے والوں کے قدموں کی آواز سنتا ہے۔ اس کا کیا مفہوم ہے؟ (ظفر اقبال۔وزیرآباد) (۵ جولائی ۲۰۰۲ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اہل قبور کو سلام کہنا ایک شرعی حکم ہے جس کی تعمیل ضروری ہے۔ یہ ایک اصولی مسئلہ ہے کہ جو بات خلافِ قیاس ہو وہ اپنے مورد میں ہی بند رہتی ہے۔ یعنی جس موقع و محل کے لیے وارد ہوئی ہے اس کے سوا دوسرے موقع و محل میںجاری نہیں کی جائے گی۔مثلاً نبی ﷺ کے ہاتھ پر کوئی معجزہ ظاہر ہو تو اس سے یہ نہیں نکلتا کہ اب نبی کو کلی اختیار ہے ،جس وقت چاہے کوئی بات ظاہر کرلے بلکہ جس وقت جو بات اللہ نے نبی کے ہاتھ پر اس قسم کی ظاہر کی وہ اسی محل میں سمجھی جائے گی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جو شخص گہری نیند سو جائے وہ نہیں سنتا حالانکہ اس میں روح موجود ہوتی ہے۔ تو پھر مردہ کس طرح سن سکتا ہے ؟ اگر مان لیا جائے کہ روح کو بدن کے ساتھ کچھ تعلق رہتا ہے تو بھی مردے کا سماع خلافِ قیاس ہے جس طرح کہ سوال میں مذکور حدیث میں ہے۔ اس حدیث پر عام قیاس کرنا ممنوع ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ خطاب کی کئی صورتیں اور وجوہ ہوتی ہیں۔ کبھی تو خطاب کرکے پاس والے کو اشارۃً مسئلہ بتلانا مقصود ہوتاہے۔ جیسے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے متوفی بھائی کو مخاطب کرکے کہا کہ میں تمہارے پاس ہوتی تو تم وہیں دفن ہوتے اور میں تمہاری زیارت کو نہ آتی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حجر ِ اسود کو خطاب کرنا بھی اسی قسم سے ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب الحج، باب استحباب تقبیل الحجر الاسود فی الطواف:۳۰۶۷)
کبھی توکل کا اظہار مقصود ہوتا ہے جیسے چاند اور زمین کی دعائیں ہیں۔ کبھی حکایت کی حالت کی یاد گار قائم رکھنے کے لیے خطاب کرتے ہیں۔ مردے کو مخاطب کرکے قبرستان میں سلام کہنا اسی قسم سے ہے کیونکہ قبرستان کے دیکھنے سے ان کی زندگی کے دن یاد آجاتے ہیں۔ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے وہ سامنے ہیں۔ (ملخص از سماع موتیٰ، لشیخنا محدث روپڑی)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب