سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(185) کیا قبروں والے ’اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ…الخ ‘سنتے ہیں؟

  • 25300
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1423

سوال

(185) کیا قبروں والے ’اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ…الخ ‘سنتے ہیں؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا قبروں والے سنتے ہیں؟ اگر نہیں سنتے اور جواب نہیں دیتے تو ہم ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا اَهْلَ الْقَبُوْرِ‘‘ کیوں کہتے ہیں؟ علیکم اور یا کیوں استعمال کرتے ہیں؟ (سائل) (۱۲ اپریل ۲۰۰۲ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واضح ہو کہ خطاب کی کئی صورتیں ہوتی ہیں:

کبھی پاس موجود شخص کو اشارۃً مسئلہ بتلانا مقصود ہوتا ہے جیسے حضرت عائشہ نے اپنے فوت شدہ بھائی کو خطاب کرکے کہا کہ’’میں تمھارے پاس ہوتی تو تم وہیں دفن ہوتے اور میں تمہاری زیارت کو نہ آتی۔‘‘ اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کا حجر ِ اسود سے خطاب کرنا بھی اسی قسم سے ہے۔ کبھی توکل کا اظہار مقصود ہوتا ہے جیسے چاند اور زمین کی دعائیں ہیں۔

کبھی حکایت (بیان) کی حالت کو قائم رکھنے کے لیے خطاب کرتے ہیں۔ جیسے ’’التحیات ‘‘میں حکایت کے طور پر اور معراج کی یادگار کو قائم رکھنے کے لیے السَّلامُ عَلَیْكَ أَیُّهَا النَّبِیُّ کہتے ہیں۔

مردوں کو مخاطب کرکے قبرستان میں سلام کہنا بھی اسی قسم سے ہے کیونکہ قبرستان دیکھنے سے ان کی زندگی کے دن یاد آجاتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے وہ سامنے ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  کا اپنے بھائی کو مخاطب کرنا اس قسم سے بھی ہو سکتا ہے اسی طرح جب میت سامنے ہو جیسے رسول اللہﷺ کی وفات کے وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ  نے کہا تھا:

’بِأَبِی أَنْتَ یَا نَبِیَّ اللَّهِ، لاَ یَجْمَعُ اللَّهُ عَلَیْكَ مَوْتَتَیْنِ۔‘(صحیح البخاری،بَابُ مَرَضِ النَّبِیِّ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَوَفَاتِهِ ،رقم:۴۴۵۲)

’’میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں،اے اللہ کے نبی! اللہ آپ پر دو موتیں جمع نہیں کرے گا۔‘‘

اس سے حضرت عمر وغیرہ کی ترددید کرنا مقصود تھا جن کا خیال تھا کہ رسول اللہﷺاگر فوت ہو بھی گئے ہوں تو پھر زندہ ہو کر فتوحات کریں گے۔

کبھی مشرکوں کے اعتقاد کے لحاظ سے اس چیز کو عاقل کے قائم مقام قرار دے کر خطاب کرتے ہیں، جس سے مقصود توحید کا اظہار اور اثبات ہوتاہے۔ جیسے چاند وغیرہ کے خطاب میں ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کا حجر ِ اسود سے خطاب کرنا بھی ممکن ہے، اس قسم میں داخل ہو۔ (صحیح مسلم، کتاب الحج، باب استحباب تقبیل الحجر الاسود فی الطواف:۳۰۶۷)

مسئلہ ہذا کی تحقیق کے لیے ملاحظہ ہو ،کتاب’’سماع موتیٰ‘‘ لشیخنا محدث روپڑی رحمہ اللہ ۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الجنائز:صفحہ:207

محدث فتویٰ

تبصرے