سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(165) کیا مرنے کے بعد برزخ میں روح کو ایک نیا بدن ملتا ہے ؟

  • 25280
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 899

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قرآن کے مطابق ہر مرنے والے کو قبر ملتی ہے جب کہ بعض لوگ جل جاتے ہیں، بعض کو درندے کھالیتے ہیں، بظاہر انھیں کئی قبر نہیں ملتی۔ دراصل برزخ نامی جگہ پر ہر مرنے والے کی روح کو ایک نیا بدن دیا جاتا ہے۔ اس نیا بدن دیے جانے ہی کو شریعت نے قبر کے نام سے تعبیر کیا ہے۔ نئے بدن میں روح ڈال کر اسے حساب کتاب ہوتا ہے اور راحت یا عذاب کا معاملہ ہوتا ہے جو شخص کہے کہ دنیاوی قبر میں راحت یا عذاب یا حساب کتاب ہوتا ہے یا روح کا بدن سے تعلق قائم کردیا جاتا ہے، وہ کافر اور ابدی جہنمی ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واضح ہو کہ قبر کا اطلاق اہل شرع کے ہاں صرف مٹی کے گڑھے پر نہیں بلکہ برزخی ساری زندگی کو محیط ہے۔چاہے کوئی سمندر کی نظر ہوجائے یا اس کی راکھ کو ہوا میں اڑا دیا جائے یا درندے وغیرہ کھا جائیں۔

ہر ایک کے ساتھ حسب اعمال برزخی زندگی میں معاملہ برحق ہے، جس طرح کہ کتاب و سنت کی بے شمار نصوص میں صراحت کی گئی ہے، مرنے والا قیامت تک کن کن مراحل سے گزرتا ہے اس کا تفصیلی علم اللہ کے علاوہ کسی کو ہیں اور عذاب و ثواب کی جملہ کیفیات کا علم صرف اس کو ہے ۔ دنیا میں یہ انسان ہر روز مرتا ہے اور اس کی روح جسم سے مفارقت اختیار کرتی ہے بیدار ہونے پر دوبارہ روح کو جسم میں لوٹا دیا جاتا ہے جس طرح کہ قرآن حکیم اور صحیح احادیث میں اس کا واضح ثبوت موجود ہے۔ جب دنیا میں روح جسم میں کئی دفعہ لوٹتی ہے اس سے کوئی شخص عقلی اور نقلی طورپر کئی زندگیاں ثابت نہیں کرتا تو مرنے کے بعد روح کے قبر کی طرف لوٹنے سے کئی زندگی کس طرح ثابت ہو جائیں گی۔ قرآن کا نزول نبیﷺ پر ہوا ہے، آپﷺ دو زندگیوں اور دو موتوں سے خوب واقف تھے ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ نبیﷺ قرآن کے خلاف کوئی بات کریں۔ جملہ محدثین نے اپنی اپنی تالیفات کے ابواب و تراجم میں مسئلہ ہذا کو خوب نکھار کر پیش کیا ہے۔

اگر امام احمد اس مسئلے کے اثبات کی بنا پر ان کی نگاہ میں مجرم ٹھہرے ہیں تو یہی بات الفقہ الاکبر میں امام ابوحنیفہ سے بھی ثابت ہے ، اس سے صرف نظر کیوں ہو رہی ہے۔ ہمارے نزدیک دونوں اماموں کا عقیدہ عین شریعت کے مطابق ہے۔ یہ عقیدہ صحیح حدیث براء بن عازب میں بہ صراحت موجود ہے۔ مسند احمد(۲۸۷/۴، ۲۹۵، ۲۶۶) ابوداؤد)۴۷۵۳) مزید ملاحظہ ہو ، بخاری(۱۳۳۸)(۱۳۷۴) مسلم(۲۸۷) تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ، مہذب شرح العقیدہ الطحاویۃ(ص:۳۱۵۔۳۲۱)

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الجنائز:صفحہ:193

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ