السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
دفنانے کے بعد روح اپنا وقت آسمان پر گزارتی ہے یا قبر میں یا دونوں جگہ ؟(سائل محمد اسلم عظیم منصوری، چونیاں)(۳ نومبر ۱۹۸۹ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قبر میں بعد از سوال مومن کی روح علّییّن میں اور کافر کی سجّین میں چلی جاتی ہے۔ لیکن ہر روح کا مستقر سے معنوی اتصال بدستور قائم رہتا ہے اور یہ اتصال دنیاوی زندگی کے مشابہے نہیں ہوتا بلکہ اس کے قریب تر حالت سوئے ہوئے انسان کی ہے۔ بظاہر اس کی روح انفصالی شکل میں کئی جگہ گھومتی پھرتی پھر ہے اور بعض علماء نے اس کو سورج کی شعاؤں سے بھی تشبیہ دی ے جو دُور دُور تک پھیل جاتی ہے۔
چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اپنے مطبوعہ فتاویٰ میں فرماتے ہیں:
’ ان ارواح المؤمنین فی علّیین و ارواح الکفار فی سجین و لکل روح اتصال وهو اتصال معنوی لا یشبه الاتصال فی الحیاة الدنیا بل اشبه شئی به حال النائم انفصالا و شبهه بعضهم بالشمس ای بشعاع الشمس وهٰذا مجمع ما افترق من الاخبار ان محل الارواح فی علیین و سجین و من کون افنیة الارواح عند افنیة قبورهم کما نقله ابن عبدالبر عن الجمهور‘
اور شیخ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ابن عبد البر کا قول یعنی روحوں کا عالم قبور میں ہونا اور مالک کا قول یعنی روحیں جہاں چاہتی ہیں کھاتی پیتی ہیں۔ یہ اقوال ضعیف ہیں کیونکہ قرآن کے ظاہر کے مخالف ہیں۔ قرآن کا ظاہر دلالت کرتا ہے کہ ارواح اللہ کے ہاں ممسک( تھمی) ہیں۔ انھیں نعمتیں اور عذاب اللہ کی مشیت کے تحت پہنچتا رہتا ہے۔ اس میں کوئی مانع (رکاوٹ) نہیں کہ ان پر عذاب اور نعمتیں پیش ہوں۔ پھر سب بدن یا اس کے بعض اجزاء کو اس کا احساس بھی ہو اور مشارٌ الیہ دلیل اللہ کا ارشاد ہے: ﴿ اَللّٰهُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِهَا﴾…(حاشیہ فتح الباری،ج:۳،ص:۲۲۳)
نیز ایک صحیح حدیث میں ہے :’اِنْ اَمْسَکْتَ نَفْسِیْ فَارْحَمْهَا وَ اِنْ اَرْسَلْتَهَا فَاحْفَظْهَا‘(صحیح البخاری،بَابُ التَّعَوُّذِ وَالقِرَاءَةِ عِنْدَ المَنَامِ،رقم: ۶۳۲۰، صحیح مسلم،بَابُ مَا یَقُولُ عِنْدَ النَّوْمِ وَأَخْذِ الْمَضْجَعِ،رقم:۲۷۱۴)
(مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، شرح العقیدۃ الطحاویۃ،ص:۳۸۹، اور ص:۳۹۱۔۳۹۲، فتح الباری، ج:۴، ص:۲۴۳، حاشیہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب