السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے علاقے سراج پارک شاہدرہ میں بعض لوگوں نے کچھ عرصے سے فتنہ بپا کررکھا ہے۔ یہ لوگ اس بات کی تبلیغ کررہے ہیں کہ ’’مرنے والے ہر نیک وبد آدمی کو ایک نیا برزخی جسم دیا جاتا ہے اور اس برزخی جسم پر ہی عذاب قبر یا راحت قبر کی کیفیات واحوال گزرتے ہیں۔ دنیاوی بدن کا موت کے بعد روح سے کوئی تعلق نہیں رہتا اور یہ دنیاوی بدن تباہ ہوجاتا ہے۔‘‘ جو شخص برزخی جسم کے عقیدے کا انکار کردے، اسے یہ لوگ کافر قرار دیتے ہیں۔ اسی بنا پر یہ لوگ اہل سنت اور اہل حدیث کو کافر گردانتے ہوئے ان سے نکاح حرام ہونے اور اِن کی نماز جنازہ میں شمولیت کے ناجائز وحرام ہونے کا چرچا کرتے ہیں۔
برزخی جسم کے قائلین برزخی جسم کے ثبوت میں صحیح بخاری (کتاب الجنائز، پارہ:۶) کی حدیث ۴۶۸ پیش کرتے ہیں جس میں ہے حضرت سمرہ بن جندب فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے اپنا خواب بیان فرمایا … جب ہم کہتے ہیں کہ یہ تو خواب کا واقعہ ہے تو وہ لوگ کہتے ہیں کہ نبی کا خواب سچ ہوتا ہے۔
ہم کہتے ہیں کہ اس حدیث میں قرآن پر عمل نہ کرنے والے پر عذاب ہونے کا ذکر بھی ہے اور عہد رسالت میں تمام مسلمان عامل قرآن تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ قرآن سے پہلی آسمانی کتابوں کو بھی قرآن کہا گیا ہے جیسا کہ حضرت داؤد کے خوش الحانی سے قرآن پڑھنے کی حدیث ہے۔
ہم کہتے ہیں کہ قیامت کے بعد کے عذاب کا احوال بیان ہوا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ حدیث میں ہے:
’ یُفْعَلُ بِهٖ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَةِ ‘
’’قیامت تک اس کے ساتھ یہی سلوک کیا جاتا رہے گا۔‘‘
لہٰذا ثابت ہوا کہ یہ قیامت سے پہلے کے عذاب کا بیان ہے، قیامت کے بعد کا نہیں۔
ان سے جب کہا جاتا ہے کہ کسی ایک حدیث میں بھی یہ بیان نہیں ہوا کہ مرنے والے کو نیا برزخی جسم دیا جاتا ہے تو جواب میں کہتے ہیں کہ دیکھو اس حدیث میں ہے:
(ا) فرشتہ ایک (جھوٹے) آدمی کا منہ چیرتے ہوئے گدی تک جسم چیر دیتا ہے۔ بعد میں وہ جسم پہلے کی طرح بھلا چنگا ہوجاتا ہے تو فرشتہ اُسے پھر اُسی تکلیف میں مبتلا کردیتا ہے۔
(ب) قرآن پر عمل نہ کرنے والے کے سر پر بھاری پتھر مارا جاتا، جس سے اس کا سر کچلا جاتا، بعد میں جسم پھر صحیح ہوجاتا، فرشتہ پھر اس کے سر پر پتھر مار کر سر کچل دیتا۔
(ھ) سود خور نہر سے نکلنے کی کوشش کرتا تو اس کے منہ پر پتھر مارا جاتا۔ فرشتہ پتھر پکڑنے جاتا ہے تو منہ پھر صحیح سلامت ہوجاتا ہے۔
ان تمام واقعات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد ایک نیا جسم دیا جاتا ہے جو تباہ ہونے کے بعد پھر پہلے جیسا بھلا چنگا ہوجاتا ہے۔ پھر انھیں عذاب دیا جاتا ہے، بدن تباہ ہوجاتا ہے لیکن وہ بدن پھر صحیح ہوجاتا ہے اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ لیکن دنیاوی بدن میں یہ خاصیت نہیں کہ تباہ ہونے کے بعد صحیح سلامت اور پہلے کی طرح بھلا چنگا ہوجائے۔
(د) دنیا میں زانی اور زانیات مختلف علاقے، شہروں اور ملکوں میں دفن کیے جاتے ہیں۔ لیکن اس حدیث میں ذکر ہے کہ ان سب کو ایک تنور میں جمع کرکے آگ بھڑکا دی جاتی ہے۔ ثابت ہوا کہ یہ عذاب قبر میں نہیں بلکہ کسی اور جگہ دیا جاتا ہے۔
ان گمراہ لوگوں کے خود ساختہ عقائد ونظریات اور خود ساختہ دین کا تار وپود بکھیڑنے کے لیے ہمیں مندرجہ ذیل سوالوں کے جوابات دیجیے۔ جزاک اللہ خیراً (والسلام: حافظ عبدالصمد، مین بازار سراج پارک، شاہدرہ)(۸ فروری ۲۰۰۸ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سوال میں مذکور/ مشارٌ الیہ حدیث الرؤیا (صحیح البخاری،کتاب الجنائز )میں مختصراً ذکر ہوئی ہے جب کہ تفصیلاً’’صحیح بخاری‘‘کی کتاب الرؤیا کے اخیر میں ’بَابُ تَعْبِیرِ الرُّؤْیَا بَعْدَ صَلاَۃِ الصُّبْحِ‘ کے تحت بیان ہوئی ہے۔ اس میں کوئی قاعدہ کلیہ کی وضاحت نہیں کہ ہر مرنے والے کے ساتھ یہی سلوک ہوتا ہے یہ تو محض مجلس کی مناسبت سے آپﷺ نے اپنی خواب کی توجیہ فرمائی ہے تاکہ ہمارے لیے سامانِ عبرت ہو اور آخرت کی ہولناکیوں سے بچ سکیں۔ نصوص شرع سے یہ بات عیاں ہے کہ ماوراء العقل برزخی اور غیبی امور میں توقف کرنا اور بلا اجتہاد ان پر ایمان لانا ہی سلامتی کی راہ ہے۔ اپنی طرف سے لب کشائی کرنا ضلالت وگمراہی کا دروازہ کھولنا ہے جو خطرناک کھیل ہے۔ معتزلہ ودیگر گمراہ فرقوں کی گمراہی کا سبب یہی تھا کہ وہ اپنی عقل کو حَکم بنا کر اس کی پیروی میں لگے رہے۔ اس بنا پر انھوں نے معجزات وکرامات اور عذابِ قبر وغیرہ ماوراء الحس اشیاء سے متعلق نصوص قاطعہ کا انکار کردیا۔ حالاں کہ چاہیے یہ تھا کہ عقل کے ساتھ نبوت کی روشنی حاصل کرتے اس کے بغیر عقل کا صراطِ مستقیم پر قائم رہنا قطعاً ممکن نہیں ہے۔ کیوں کہ عقل بذاتہ ناقص ہے اشیاء کی حقیقت اور کنہ کے ادراک سے قاصر ہے۔
مثلاً گنا میٹھا کیوں ہے؟ اور اندرائن کڑوی کیوں ہے؟ جب کہ اُگنے کی زمین اور پانی ایک جیسا ہے تو یہ فرق کیوں ہے؟ اس کا جواب عقل کی بجائے وحی کے ذریعہ ملے گا کہ خالق ومالک نے قدرتِ تامہ کے اظہار کے لیے اور حکمت کاملہ کی بنا پر مختلف رنگ اور ذائقے پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ ان میں مختلف تاثیر پیدا فرمادی ہے۔ اسی طرح برزخی امور جو کتاب وسنت میں ثابت ہیں ان پر بھی یقین رکھنا جزوِ ایمان ہے۔ دنیا میں آدمی جس بدن، ہاتھ، پائوں وغیرہ کے ساتھ اعمال کا مرتکب ہوتا ہے، جزا وسزا کا تعلق بھی انھی سے ہے، مرنے کے بعد اور بروزِ قیامت یہی شہادتی بنیں گے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ اعمال خیر وشر دنیا کے بدن سے ہوں، جزا وسزا دوسرے بدن کو ملے۔ یہ تو سراسر بے انصافی ہے جس کا ذات باری تعالیٰ سے تصور کرنا بھی محال ہے، اور جو مناظر رسول اللہﷺ نے بحالت خواب دیکھے ان کا تعلق بھی اسی بدن سے ہے۔ ’برزخی جسم‘ کی اصطلاح خود ساختہ ہے جس کا شرع میں کوئی اصل نہیں، صحابہ وتابعین، تبع تابعین اور بعد کے سلف صالحین میں سے کسی نے بھی یہ بات نہیں کہی۔ پھر یہ کہنا کہ ’’دنیاوی بدن کا موت کے بعد روح سے کوئی تعلق باقی نہیں رہتا اور یہ دنیاوی بدن تباہ ہوجاتا ہے‘‘ غلط دعویٰ ہے۔ ’’صحیح بخاری‘‘ میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:
’ إِذَا وُضِعَتِ الجِنَازَةُ، فَاحْتَمَلَهَا الرِّجَالُ عَلَی أَعْنَاقِهِمْ، فَإِنْ کَانَتْ صَالِحَةً قَالَتْ: قَدِّمُونِی، وَإِنْ کَانَتْ غَیْرَ صَالِحَةٍ قَالَتْ لِأَهْلِهَا: یَا وَیْلَهَا أَیْنَ یَذْهَبُونَ بِهَا؟، یَسْمَعُ صَوْتَهَا کُلُّ شَیْء ٍ إِلَّا الإِنْسَانَ، وَلَوْ سَمِعَ الإِنْسَانُ لَصَعِقَ ۔‘( صحیح البخاری، بَابُ قَوْلِ المَیِّتِ وَهُوَ عَلَی الجِنَازَةِ: قَدِّمُونِی ،رقم:۱۳۱۶ )
’’جب میت کو چارپائی پر رکھا جاتا ہے اور لوگ اسے اپنی گردنوں پر اٹھا لیتے ہیں، اگر وہ نیک ہے تو کہتا ہے مجھے آگے لے چلو اور اگر وہ برا ہے تو پکارتا ہے اے شامت مجھے کدھر لے چلے ہو؟! اس آواز کو انسان کے علاوہ ہر چیز سنتی ہے۔ اور اگر انسان اس کو سن لے تو بیہوش ہو کر گر پڑے۔‘‘
اس حدیث پر امام بخاری رحمہ اللہ نے بایں الفاظ تبویب قائم کی ہے:
’ بَابُ قَوْلِ المَیِّتِ وَهُوَ عَلَی الجِنَازَةِ : قَدِّمُونِی۔‘
حدیث ہذا اس امر کی واضح دلیل ہے کہ موت کے بعد بھی بدن اور روح کا رابطہ قائم رہتا ہے اور بدن کا بوسیدہ ہونا صرف ہماری رؤیت کے اعتبار سے ہے ورنہ خالق ومالک کے لیے دونوں حالتیں برابر ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿أَلا يَعلَمُ مَن خَلَقَ وَهُوَ اللَّطيفُ الخَبيرُ ﴿١٤﴾... سورة الملك
’’بھلا جس نے پیدا کیا وہ بے خبر ہے وہ تو پوشیدہ باتوں کو جاننے والا اور ہر چیز سے آگاہ ہے۔‘‘
ان لوگوں کا یہ زعم کہ دنیاوی بدن میں دوبارہ صحیح ہونے کی خاصیت نہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جس ہستی نے پہلے اس کو پیدا کیا وہ اسی کو دوبارہ لوٹانے پر بھی قادر ہے۔﴿ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ﴾ کے یہی معنی ہیں۔ اللہ رب العزت نے اس حقیقت کی وضاحت یوں فرمائی ہے:
﴿وَضَرَبَ لَنا مَثَلًا وَنَسِىَ خَلقَهُ قالَ مَن يُحىِ العِظـٰمَ وَهِىَ رَميمٌ ﴿٧٨﴾ قُل يُحييهَا الَّذى أَنشَأَها أَوَّلَ مَرَّةٍ وَهُوَ بِكُلِّ خَلقٍ عَليمٌ ﴿٧٩﴾... سورة يس
’’اور اس نے ہمارے لیے مثال بیان کی اور اپنی پیدائش کو بھول گیا، کہنے لگا ان ہڈیوں کو کون زندہ کرسکتا ہے جب کہ یہ بوسیدہ ہوچکی ہوں۔ آپ جواب دیجیے! کہ انھیں وہ زندہ کرے گا جس نے انہیں اول مرتبہ پیدا کیا ہے جو سب طرح کی پیدائش کا بخوبی جاننے والا ہے۔‘‘
قرآنی وضاحت سے بھی ثابت ہوا کہ دوبارہ زندگی دنیاوی بدن سے ہی ہوگی ورنہ تو ’’کرے کوئی اور بھرے کوئی‘‘ کا مصداق ہوگا۔ فرمانِ الٰہی ہے:
﴿وَما أَنا۠ بِظَلّـٰمٍ لِلعَبيدِ ﴿٢٩﴾... سورة ق
’’اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے۔‘‘
یاد رہے شرع میں قبر کا مفہوم عالم برزخ کو شامل ہے۔ چاہے کسی کو دفن کیا جائے یا نہ کیا جائے، درند پرند کھا جائیں یا اس کی راکھ ہوا میں اڑا دی جائے سب کو محیط ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے خواب میں جو ہولناک تنور دیکھا تھا وہ بھی دراصل قبر ہی کا حصہ ہے، علیحدہ کوئی شے نہیں۔ بقیہ مزید سوالات کے جوابات بالاختصار ملاحظہ فرمائیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب