سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(148) مسئلہ ’’اسقاطِ میت‘‘ کی شرعی حیثیت؟

  • 25263
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-05
  • مشاہدات : 865

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اس علاقہ میں جب کوئی موت واقع ہوتی ہے تو غریب یا متوسط طبقہ سے ہو ،کفنی پر شہادتین لکھ کر میت کے سینہ پر رکھ کر دفن کرتے ہیں۔ پھر اسقاط کے نام پر کچھ رقم بعض علاقوں میںتوشہ کے نام سے غلہ ، نمک، چھوہارے وغیرہ قبر پر لوگوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ اچھی گزران والے لوگ حفاظ قبر پر چند دن بٹھاتے ہیں اور میت کے ورثاء ایک کاپی رکھ دیتے ہیں آنے والے لوگ اپنے نام لکھا کر حسب توفیق ۱۰ ۔۲۰ یا زیادہ روپے دے کر جاتے ہیں۔

اسی دن یا دوسرے دن قبرپر روشنی آگ یا لالٹین جلا کر ۴۰ دن رکھتے ہیں۔ پھر ختم قرآن کا سلسلہ ہر جمعرات سے جاری ہو کر کوئی پکے چالیس کوئی کچے یعنی جس دن جمعرات ہو چالیسواں کرتے ہیں۔ ان تمام امور میں ہم رکاوٹ ڈالتے ہیں۔ مگر اکثریت پر اثر نہیں ہوتا۔ کیا ان کاموں سے روکنے کے باوجود جو نہ رکے یا میت کا ہفتہ وار ختم ہو اور صورت اس طرح ہو کہ آپ میت کے گھر دعوت کھائیں گے۔ اس صورت میں بغیر ختم پڑھے گاؤں کے رواج کے مطابق وہ کھانا جائز ہے یا نہیں؟

پوری تفصیل سے جواب عنایت فرمائیں۔( محمد یعقوب) (یکم دسمبر۱۹۹۵ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سوال میں مذکور امور بعض وجوہات کی بناء پر ناجائز ہیں۔

۱۔         عہدِ نبوتﷺ اور عہد ِ صحابہ رضی اللہ عنہم  و تابعین  رحمہم اللہ وتبع تابعین  رحمہم اللہ   میں ان کا کوئی نام و نشان نہ تھا۔ اگر اس طریق سے گناہ معاف ہوتے تو کیا ان کو گناہ کی معافی کی ضرورت نہ تھی۔ ؟ یا وہ میت سے خیرخواہ نہ تھے؟ یا ان کو نیک کاموں کا شوق نہ تھا؟ جب یہ سب باتیں تھیں بلکہ ہم سے بڑھ کر وہ ایسی باتوں کا خیال رکھتے تھے ، تو پھر کیا وجہ ہے خیر القرون میں اس کا ثبوت نہیں ملتا؟ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے اسقاط سے میت کے گناہ معاف نہیں ہوتے۔

رسول اللہﷺ فرماتے ہیں:

’مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا، فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ‘(صحیح البخاری،بَابُ مَا یُکْرَهُ مِنَ النِّیَاحَةِ عَلَی المَیِّتِ،رقم:۱۲۹۱)

’’یعنی ، جو مجھ پر جھوٹ بولے وہ اپنا ٹھکانہ آگ میں بنائے۔‘‘

۲۔        جس کام کی رسول اللہﷺ کے زمانہ میں ضرورت ہو اور اس کے کرنے سے کوئی شئے مانع بھی نہ ہو پھر اس کو کوئی نہ کرے تو وہ قطعی بدعت ہوتا ہے۔ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں:

’ مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا هٰذَا مَا لَیْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ ‘(صحیح البخاری،بَابُ إِذَا اصْطَلَحُوا عَلَی صُلْحِ جَوْرٍ فَالصُّلْحُ مَرْدُودٌ،رقم:۲۶۹۷)

یعنی ہمارے دین میں جو نئی بات نکالے وہ مردود ہے۔‘‘

اور ایک روایت میں ہے کہ ایسا شخص لعنتی ہے، بلکہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر نیا کام دین میں مردود ہے۔ خواہ اس کی ضرورت ہو یا نہ ہو۔ پس اسقاط کرنے والوں کو چاہیے کہ یا تو خیر القرون سے اس کا ثبوت دیں یا اللہ سے ڈریں اورایسے کاموں سے باز آجائیں۔ جو بجائے ثواب کے اللہ کی ناراضگی کا باعث ہیں۔(ماخوذ از رسالہ ردِّ بدعات لشیخنا محدث روپڑی  رحمہ اللہ )

ایسی مجالس میں شرکت سے ہر صورت احتراز کرنا چاہیے۔ قرآن میں ہے:

﴿وَقَد نَزَّلَ عَلَيكُم فِى الكِتـٰبِ أَن إِذا سَمِعتُم ءايـٰتِ اللَّهِ يُكفَرُ بِها وَيُستَهزَأُ بِها فَلا تَقعُدوا مَعَهُم حَتّىٰ يَخوضوا فى حَديثٍ غَيرِهِ إِنَّكُم إِذًا مِثلُهُم ... ﴿١٤٠﴾... سورة النساء

’’اور اللہ نے تم مومنوں پر اپنی کتاب میں(یہ حکم) نازل فرمایا ہے کہ جب تم(کہیں) سنو کہ اللہ کی آیتوں سے انکار ہو رہا ہے اور ان کی ہنسی اڑائی جاتی ہے تو جب تک وہ لوگ اور باتیں(نہ) کرنے لگیں ان کے پاس مت بیٹھو ورنہ تم بھی انہی جیسے ہو جاؤ گے۔‘‘

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الجنائز:صفحہ:183

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ