سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(124) مسجد کے قریب قبر بنانا

  • 25239
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 660

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

درج ذیل سوال کے متعلق مفصل جواب قرآن و حدیث کی روشنی میں عنایت فرما کر عند اللہ ماجور ہوں۔

مسجد کے قریب قبر بنانا کیسا ہے ؟ یا قبر کے نزدیک مسجد بنانا جائز ہے ؟ جب کہ قبر نبویﷺ آج کل مسجد کے اندر ہی موجود ہے۔ اردگرد مسجد ہے۔ لوگ نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ اگر یہ استثناء ہے تو کس دلیل سے؟( یہاں پر تین قبریں ہیں) (انجینئر محمد بلال کوٹ ادو، ضلع مظفر گڑھ) (۱۰ مئی ۱۹۹۶ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسجد کے نزدیک قبر بنانا یا قبر کے نزدیک مسجد تعمیر کرنا دونوں طرح ناجائز ہے۔ کیونکہ اسلام میں مسجد اور قبر کا اجتماع ممنوع ہے۔ حدیث میں ہے:

’ اجْعَلُوا فِی بُیُوتِکُمْ مِنْ صَلاَتِکُمْ وَلاَ تَتَّخِذُوهَا قُبُورًا‘ (صحیح البخاری ،بَابُ کَرَاهِیَةِ الصَّلاَةِ فِی المَقَابِرِ،رقم:۴۳۲)

’’یعنی گھروں میں بھی نماز پڑھا کرو انھیں قبریں مت بناؤ۔‘‘

اور دوسری روایت میں ہے:

’ الْأَرْضُ کُلُّهَا مَسْجِدٌ، إِلَّا الْمَقْبَرَةَ وَالْحَمَّامَ۔‘ سنن ابن ماجه،بَابُ الْمَوَاضِعِ الَّتِی تُکْرَهُ فِیهَا الصَّلَاةُ،رقم:۷۴۵،( سنن ابی داؤد،بَابٌ فِی الْمَوَاضِعِ الَّتِی لَا تَجُوزُ فِیهَا الصَّلَاةُ،رقم:۴۹۲)

یعنی ’’ قبرستان اور حمام کے علاوہ تمام زمین مسجد ہے۔‘‘

اوّل الذکر روایت سے اکثر اہل علم نے استدلال کیا ہے کہ قبرستان محل نماز ہیں ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ  نے حدیث ہذا میں بَابُ کَرَاہِیَۃِ الصَّلاَۃِ فِی المَقَابِرِ کا ترجمہ قائم کیا ہے۔

امام احمد رحمہ اللہ  سے منقول ہے کہ جس نے قبرستان میں یا کسی قبر کی جانب رُخ کرکے نماز پڑھی وہ اس کا اعادہ کرے اور جہاں تک مسجد نبوی کا تعلق ہے۔سو وہ اس حکم سے مستثنیٰ ہے کیونکہ اس کی فضیلت خصوصی حیثیت سے ہے۔

چنانچہ ایک روایت میں ہے۔ میری اس مسجد میں نماز کا ثواب دوسری مساجد کے مقابلہ میں ہزار نماز سے زیادہ ہے۔ ما سوائے مسجد الحرام کے کہ وہ اس سے افضل ہے۔ (صحیح البخاری،کتاب فضل الصلاۃ فی مسجد مکة والمدینةَ،بَابُ فَضْلِ الصَّلاَۃِ فِی مَسْجِدِ مَکَّۃَ وَالمَدِینَةِ،رقم:۱۱۹۰)

اور دوسری روایت میں ہے کہ میرے بیت یعنی حجرہ اور منبر کے درمیان کا قطعہ جنت کے باغات سے ہے۔ (صحیح البخاری،بَابُ فَضْلِ مَا بَیْنَ القَبْرِ وَالمِنْبَرِ،رقم:۱۱۹۵)

 لہٰذا اگر مسجد نبوی میں نماز کی کراہت کا فتویٰ دیا جائے تو اس کی حیثیت دوسری مساجد کے برابر ہوجائے گی۔ اور ان فضائل کی نفی لازم آئے گی۔تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ  کی معروف کتاب ’’الجواب الکافی‘‘

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الجنائز:صفحہ:171

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ