سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(113) قبروں پر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا کیسا ہے؟

  • 25228
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1998

سوال

(113) قبروں پر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا کیسا ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قبروں پر ہاتھ اٹھا کردعا کرنا کیسا ہے؟(ابوعبداللہ نذیر احمد جونیجو،سندھ)  (۷ مئی ۱۹۹۹ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قبرستان میں ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا جائز ہے۔ چنانچہ ’’مسند احمد‘‘ وغیرہ میں حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ رات کے وقت بقیع میں تشریف لے گئے۔ وہاں جا کر کھڑے ہو گئے۔ پھرآپ نے ہاتھ اٹھائے(اور دعا کی) پھر واپس چلے آئے۔ نیز’’صحیح مسلم‘‘اور ’’مسند احمد‘‘ میں حضرت عائشہ سے ایک دوسرے قصہ میں مروی ہے کہ آپﷺ اہل بقیع کے پاس تشریف لے گئے۔ اور وہاں تین مرتبہ ہاتھ اٹھا کر دعا کی لیکن داعی بوقت دعا ، قبروں کی طرف متوجہ نہ ہو بلکہ قبلہ رو کھڑے ہو کردعا کرے۔ اس لیے کہ رسول اللہﷺنے قبر کی طرف متوجہ ہو کر نماز سے منع فرمایا ہے۔ اور دعا ہی نماز کا لب لباب ہے۔ لہٰذا دعا بھی قبلہ رُخ ہو کر ہی کی جائے۔

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ  فرماتے ہیں: یہ دعا ہے کہ دعا کے کرنے والے کے لیے اس جانب متوجہ ہونا مستحب ہے جس جانب کہ وہ نماز میں متوجہ ہوتا ہے۔ (اقتضاء الصراط المستقیم،ص:۱۷۵)

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ دعاء کے وقت قبلہ کی جانب متوجہ ہونا ضروری ہے۔ خواہ دعا کرنے والا روضۃ الرسول کے جوار (پاس) میں کیوں نہ ہو۔ یہی مسلک ائمہ شوافع کا بھی ہے جس طرح کہ ’’شرح المہذب‘‘  نووی میں ہے۔ امام ابوحنیفہ کا بھی مسلک ہے جس کی تصریح ’’القاعدۃ الجلیلہ‘‘ میں موجوہ ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ  آنحضرتﷺکی قبر مبارک پر سلام کے وقت بھی توجہ الی القبلہ ضروری قرار دیتے ہیں۔ جیسا کہ دعا میں ضروری ہے البتہ عام حالات میں امام بخاری رحمہ اللہ  نے اپنی’’صحیح‘‘ میں قبلہ رُخ اور غیر قبلہ رُخ دونوں طرح دعا کو جائز قرار دیا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:

’ بَابُ الدُّعَاءِ غَیْر مُسْتَقْبِلِ الْقِبْلَةَ ۔ ‘

خطبہ جمعہ میں آنحضرتﷺ کی دعا: ’اللَّهُمَّ حَوَالَیْنَا وَلاَ عَلَیْنَا ‘(صحیح البخاری،بَابُ الِاسْتِسْقَاءِ فِی المَسْجِدِ الجَامِعِ،رقم:۱۰۱۳)سے ان کا استدلال ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

’وَوَجْهٌ أَخْذَهُ مِنَ التَّرْجَمَةِ مِنْ جِهَةِ أَنَّ الْخَطِیبَ مِنْ شَأْنِهِ أَنْ یَسْتَدْبِرَ الْقِبْلَةَ وَأَنَّهُ لَمْ یُنْقَلْ أَنَّهُ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا دَعَا فِی الْمَرَّتَیْنِ اسْتَدَارَ وَقَدْ تَقَدَّمَ فِی الِاسْتِسْقَاء ِ مِنْ طَرِیقِ إِسْحَاقَ بْنِ أَبِی طَلْحَةَ عَنْ أَنَسٍ فِی هَذِهِ الْقِصَّةِ فِی آخِرِهِ وَلَمْ یَذْکُرْ أَنَّهُ حَوَّلَ رِدَاءَهُ وَلَا اسْتقْبل الْقبْلَة ‘( فتح الباری:۱۴۳/۱۱)

اور دوسری تبویب یوں ہے : بَابُ الدُّعَائِ مُسْتَقْبِلَ القِبْلَۃِ پھر حدیث الاستسقاء کے الفاظ سے استدلال ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

’ فَأَشَارَ کَعَادَتِهِ إِلَی مَا وَرَدَ فِی بَعْضِ طُرُقِ الْحَدِیثِ وَقَدْ مَضَی فِی الِاسْتِسْقَاءِ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ بِلَفْظٍ وَإِنَّهُ لَمَّا أَرَادَ أَنْ یَدْعُوَ اسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ وَحَوَّلَ رِدَاء َهُ ۔‘

اس بارے میں متعدد احادیث وارد ہیں۔ جن میں قبلہ رُخ کا تعین ہے۔ صاحب ’’فتح الباری‘‘ نے ان کی نشاندہی کی ہے۔ پھر بحث کے اختتام پر فرماتے ہیں: ابن مسعود رضی اللہ عنہ  کی حدیث میں ہے، میں نے رسول اللہﷺ کو عبداللہ ذی النجادین کی قبر پر دیکھا… الحدیث۔

اس میں یہ الفاظ بھی ہیںـ:

’ فَلَمَا فَرَغَ مِنْ دَفْنِهٖ اِسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ رَافِعًا یَدَیْهِ اَخْرَجَهُ عَوَانَةُ فِی صَحِیْحِهٖ ‘ (بحواله فتح الباری:۱۴۴/۱۱)

’’یعنی جب آپﷺ عبد اللہ ذی نجادین کے دفن سے فارغ ہوئے تو قبلہ رُخ ہو کر آپﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے۔‘‘

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الجنائز:صفحہ:165

محدث فتویٰ

تبصرے