سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(110) بعد از جنازہ اور قبر پر دعا کا شرعی حکم ( ایک حنفی فتوے پر تعاقب)

  • 25225
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-06
  • مشاہدات : 1425

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مکرمی و مخدومی مفتی صاحب۔ میں نے گزشتہ دنوں بصیر پور کے مفتی محمد محب اللہ نوری صاحب سے ’’دعا بعد نمازِ جنازہ‘‘ کے جواز اور عدمِ جواز کے بارے میں استفسار کیا تھا تو انھوں نے مجھے جو جواب ارسال فرمایا، وہ میںآپ کی خدمت میں ارسال کر رہا ہوں ۔ آپ ازراہِ کرم کتاب و سنت کی روشنی میں اس فتوے کا جائزہ لیں اور اصل مسئلہ پر بھی روشنی ڈالیں۔ نوری صاحب موصوف کاجواب درج ذیل ہے۔ (محمد اسلم راناایڈیٹر ماہنامہ’’المذاہب‘‘ لاہور) (۱۵ دسمبر۲۰۰۰ء)

مکرم و محترم جناب پروفیسر محمد اسلم رانا صاحب۔

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ… مزاجِ گرامی!

مکتوب گرامی باصرہ افروز ہوا، یاد فرمائی کا شکریہ… گزشتہ کئی روز مسلسل سفر میں رہا، جواب میں تاخیر پر معذرت خواہ ہوں…

’’دعا بعد نمازِ جنازہ‘‘ کے حوالے سے آپ نے اپنے تاثرات کا اظہار فرمایا، جواباً عرض ہے کہ حضرت فقیہ اعظیم عَلَیہِ الرَّحْمَۃ نے دعا کی اہمیت پر احادیث نقل کیں… جب دعا کی اس قدر تاکید ہے تو نمازِ جنازہ کے بعد بھی کی جانی چاہئیے۔ جب کہ کسی حدیث میں اس سے منع نہیں کیا گیا۔ جب دعا مطلقاً جائز ہے تو جنازہ کے بعد ناجائز کیوں؟

حدیث مبارک ’اِذَا صَلَّیْتُمْ عَلَی الْمَیِّتِ فَاَخْلِصُوا لَهُ الدُّعَاء‘(سنن ابن ماجه،بَابُ مَا جَاء َ فِی الدُّعَاء ِ فِی الصَّلَاةِ عَلَی الْجِنَازَةِ،رقم:۱۴۹۷)کا ترجمہ’’جب میت پر نماز پڑھ چکو تو اخلاص کے ساتھ اس کے لیے دعا کرو۔‘‘ ازروئے قواعد درست ہے، کیونکہ ’’ فاء تعقیب‘‘ کا یہی مفاد ہے۔

آپ نے شاید توجہ نہیں فرمائی۔ مضمون میں خاص دعا بعد نمازِ جنازہ کے حوالے سے کئی احادیث ہیں۔ مثلاً یہ کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے جنازہ پڑھایا پھر بعد از فراغت دعا فرمائی۔ یہ حدیث ’’ابن ابی شیبہ‘‘ میں ہے۔

یہ جان کر اطمینان ہوا کہ ماہنامہ نور الحبیب باقاعدہ آپ کو مل رہا ہے۔ (والسلام)

(صاحبزادہ ) محمد محب اللہ نوری مہتمم دارالعلوم حنفیہ فریدیہ بصیرپور شریف۔(اوکاڑہ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

فتویٰ میں مذکور حدیث کی تشریح بقول علامہ مناوی رحمہ اللہ  یوں ہے کہ

’’میت کے لیے اخلاص کے ساتھ دعا کرو کیوں کہ اس نمازِ (جنازہ) سے مقصود میت کے لیے صرف سفارش کرنا ہے جب دعا میں اخلاص اور عاجزی ہوگی تو اس کے قبول ہونے کی امید ہے۔ (عون المعبود:۱۸۸/۳)

’’مستدرک حاکم‘‘ میں حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ  کی روایت ہے:

’ وَیُخْلِصَ الصَّلَاةَ فِی التَّکْبِیرَاتِ الثَّلَاثِ ۔‘ (المستدرك للحاکم ،کِتَابُ الْجَنَائِزِ، رقم:۱۳۳۱)

’’یعنی جنازہ کی تین تکبیروں کے دوران اخلاص سے دعا کرے۔‘‘

حدیث ہذا میں اس امر کی وضاحت ہو گئی کہ دعا کا تعلق صرف حالتِ نماز کے ساتھ ہے۔اصولی قاعدہ معروف ہے کہ:’اَلاَحَادِیْثُ یُفَسِّرُ بَعْضُهَا بَعْضًا‘ ’’احادیث ایک دوسری کی تفسیر ہوتی ہیں۔‘‘ بنابریں محولہ حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جب تم نمازِ جنازہ پڑھنا چاہو تو میت کے لیے خلوص کے ساتھ دعا کرو۔

یہ اقامۃ المسبب مقام السبب کی قبیل سے ہے۔ارادہ سبب اور نماز مسبب ہے ۔ فاء کی ترتیب و تعقیب بلا مہلت ہونے کا یہی مطلب ہے اگر مقصود یہاں دعا بعد الصلوٰۃ ہوتی تو پھر ’’فائ‘‘ کی بجائے لفظ ’’ثُمَّ‘‘ ہونا چاہیے تھا۔ یعنی ’فَاَخْلِصُوْا‘ کی بجائے ’ثُمَّ اَخْلِصُوْا‘ ہونا چاہیے تھا۔ جو عام حالات میں ترتیب اور تراخی(وقفے) کا فائدہ دیتا ہے۔ لہٰذا مفتی صاحب موصوف کی توجیہ غلط ہے کہ فاء تعقیب کا یہی مفاد ہے۔

پھر یہ حدیث سنن ابی داؤد اور سنن ابن ماجہ وغیرہ میں ہے۔ امام ابوداؤد نے یہ حدیث جنازے کے دوران دعائیں پڑھنے کے ضمن میں ذکر کی ہے۔ انھوں نے اس پر تبویب یوں قائم کی ہے: ’بَابُ الدُّعَاء لِلْمَیِّتِ‘ ’’میت کے لیے دعا کا بیان۔‘‘

اس حدیث پر امام ابن ماجہ کی تبویب بھی ملاحظہ فرمائیں۔ اور بار بار غور سے پڑھیں۔ وہ فرماتے ہیں:’بَابُ مَا جَائَ فِی الدُّعَاءِ فِی الصَّلٰوةِ عَلَی الْجَنَازَةِ‘ ’’نمازِ جنازہ میں دعا کے بارے میں جو کچھ وارد ہوا ہے۔ اس کا بیان)

اس سے معلوم ہوا کہ محدثین اور مفتی صاحب کے فہم میں بُعد المشرقین ہے، لہٰذا تحریف ہذا پر انھیں ندامت کا اظہار کرکے حق کی طرف رجوع کی فکر کرنی چاہیے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کا قول ہے:

’ وَمُرَاجَعَةُ الْحَقِّ خَیْرٌ مِنْ التَّمَادِی فِی الْبَاطِلِ‘(اعلام الموقعین:۶۸/۱)

’’باطل پر اصرار سے بہتر ہے کہ آدمی حق کی طرف رجوع کرلے۔‘‘

اگر مفتی صاحب کا مذکورہ قاعدہ تسلیم کر لیا جائے تو بہت سی قرآنی آیات میں بھی معنوی تحریف ہو جائے گی۔ مثال کے لیے یہ آیت ملاحظہ فرمائیں۔ قرآنِ مجید میں ہے:

﴿فَإِذا قَرَأتَ القُرءانَ فَاستَعِذ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيطـٰنِ الرَّجيمِ ﴿٩٨﴾... سورةالنحل

’’جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو۔‘‘

ائمہ لغت ’’زجاج‘‘ وغیرہ نے اس کے معنی یوں بیان کیے ہیں:

’اذَا اَرَدْتَّ اَنْ تَقْرَأَ الْقُرْاٰنَ اِسْتَعِذْ بِاللّٰهِ وَ لَیْسَ مَعْنَاهُ بَعْدَ اَنْ تَقْرَأَ الْقُرْاٰنَ۔‘

’’یعنی’’ جب تم قرآن کی تلاوت کا ارادہ کرو تو اللہ سے پناہ مانگ لیا کرو۔یہ معنی نہیں کہ تلاوتِ قرآن کے بعد اعوذ باللہ پڑھا کرو۔‘‘

اسی کی مثل قائل کا یہ قول بھی ہے کہ : ’اِذَا اَکَلْتَ فَقُلْ بِسْمِ اللّٰهِ‘ ’’یعنی جب تم کھانے کا ارادہ کرو تو بسم اللہ پڑھو۔‘‘ اس کے قطعاً یہ معنی نہیں کہ کھانے سے فراغت کے بعد بسم اللہ پڑھنی چاہیے۔‘‘

امام واحدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں، فقہائے کرام کا اس بات پر اجماع ہے کہ استعاذہ قراء ت سے پہلے ہے۔( تفسیر فتح القدیر:۱۹۳/۳)

اس میں شبہ نہیں کہ شرع میں عمومی دعا کی تاکید و تلقین اور فضیلت وارد ہوئی ہے اور غالباً اسی بناء پر فقہائے حنفیہ نے جنازے میں قراء ت سے استغناء اختیار کرکے اس کا نام دعا و ثناء وغیرہ رکھا ہے۔’’ مؤطا امام محمد رحمہ اللہ ‘‘میں ہے:

’لَا قِرَائَةَ عَلَی الْجَنَازَةِ وَهُوَ قَوْلُ اَبِیْ حَنِیْفَةَ ‘

اور یہ قول’’ المبسوط‘‘ سرخسی میں بھی ہے۔(۶۴/۲)

البتہ محقق ابن الہمام ’’فتح القدیر‘‘(۴۹۸/۱) میں فرماتے ہیں کہ فاتحہ نہ پڑھے تاہم بہ نیت ثناء پڑھی جاسکتی ہے کیونکہ قراء ت رسول اللہﷺسے ثابت نہیں۔ علامہ ابن الہمام جیسے محقق کی یہ بات انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ اس لیے کہ فاتحہ کی قراء ت کا اثبات تو ’’صحیح بخاری‘‘ میں موجود ہے۔

’بَابُ قِرَائَةِ الْفَاتِحَةِ الْکِتَابِ عَلَی الْجَنَازَةِ ‘

تو پھر کیا یہ بات معقول ہے کہ اثنائے جنازہ میں اخلاصِ دعا کی تاکید تو نہ ہو لیکن سلام پھیرنے کے بعد کہا جائے کہ اب اخلاص سے دعا کرو ۔ غالباً اس دھوکہ کے پیش نظر نمازِ جنازہ کا تو جھٹکا کرتے ہیں بعد میں لمبی لمبی دعائیں کی جاتی ہیں۔ جس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں۔

واضح ہو کہ ’’اصولِ فقہ‘‘‘ کا قاعدہ معروف ہے کہ عبادات میں اصل ممانعت ہے جواز کے لیے دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔ (یعنی دعا سمیت ہر دعا کے لیے دلیل کی ضرورت ہے) عہدِ نبوت میں کتنے جنازے پڑھے گئے کسی ایک موقع پر بھی ثابت نہیں ہو سکا کہ نبیﷺ نے بعد از جنازہ دعا کی ہو۔ صحیح حدیث میں ہے:

’ مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا هٰذَا مَا لَیْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ ‘(صحیح البخاری،بَابُ إِذَا اصْطَلَحُوا عَلَی صُلْحِ جَوْرٍ فَالصُّلْحُ مَرْدُودٌ،رقم:۲۶۹۷)

’’ یعنی جو دین میں اضافہ کرے وہ مردود ہے۔‘‘

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’عَلَیْكَ بِالْاَثْرِ وَ طَرِیْقَة السَّلْفِ وَ اِیَّاكَ وَ کُلُّ مُحْدَثَةٍ فَاِنَّهَا بِدْعَةٌ ۔‘ ذم التأویل ابن قدامه

’’آثار اور طریقہ سلف کو لازم پکڑو۔ اپنے کو دین میں اضافہ سے بچاؤ کہ وہ بدعت ہے۔‘‘

ابن الماجشون نے کہا کہ میں نے امام مالک رحمہ اللہ  سے سنا، وہ فرماتے تھے:

’’جو دین میں بدعت ایجاد کرکے اسے اچھی سمجھے تو وہ یہ سمجھتا ہے کہ محمدﷺ نے رسالت میں خیانت کی ہے کیونکہ اللہ کافرمان ہے:﴿ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ…﴾ (المائدۃ:۳) جو چیز اُس وقت دین نہیں تھی وہ آج بھی دین نہیں ہو سکتی۔‘‘

اور امام شافعی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں: ’’جس نے بدعت کو اچھا سمجھا، اس نے نئی شریعت بنالی۔‘‘ (السنن والمبتدعات)

نیز یہ بھی یاد رہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ  سے منقول اثر کا تعلق جنازے کے متصل بعد کی دعا سے نہیں بلکہ دفنِ میت سے ہے۔ جیسا کہ یہاں منقول جملہ آثار اس بات پر دال ہیں۔ اس اثر پر مصنف نے جو عنوان قائم کیا ہے۔ اس کے الفاظ یوں ہیں:

’فِی الدُّعَاءِ لِلْمَیِّتِ بَعْد مَا یدفِن وَ یُسَوِّیْ عَلَیْهِ‘

’’قبر پر مٹی برابر کرکے میت کے لیے دعا کرنے کا بیان۔‘‘

اس میں تو کسی کو کلام نہیں، یہ ثابت شدہ امر ہے ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ  کی روایت میں ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو عبد اللہ ذی نجادین کی قبر پر دیکھا، جب دفن سے فارغ ہوئے تو قبلہ رُخ ہاتھ اٹھا کر دعا کی۔ اخرجہ ابو عوانۃ فی صحیحہ (فتح الباری:۱۴۴/۱۱)

الخیر کل الخیر فی الابتاع والشر کل الشر فی الابتداع۔

اللہ رب العزت جملہ مسلمانوں کو صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق بخشے۔ آمین

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الجنائز:صفحہ:160

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ