السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میت کو قبر میں دفن کرنے کے بعد قبر پر اذان دینا کیسا ہے؟ٹوبہ ٹیک سنگھ میں قبر پر اذان دی گئی جو کہ باعث ِ نزاع بنی ہوئی ہے اور قبرپر اذان دینے کے جواز میں مشکوٰۃ المصابیح کی یہ حدیث پیش کی جاتی ہے:
حدیث: ’عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِیِّ، قَالَ:خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَوْمًا إِلَی سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ حِینَ تُوُفِّیَ، قَالَ:فَلَمَّا صَلَّی عَلَیْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَوُضِعَ فِی قَبْرِهِ وَسُوِّیَ عَلَیْهِ، سَبَّحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَسَبَّحْنَا طَوِیلًا، ثُمَّ کَبَّرَ فَکَبَّرْنَا، فَقِیلَ:یَا رَسُولَ اللَّهِ، لِمَ سَبَّحْتَ؟ ثُمَّ کَبَّرْتَ؟ قَالَ:لَقَدْ تَضَایَقَ عَلَی هَذَا الْعَبْدِ الصَّالِحِ قَبْرُهُ حَتَّی فَرَّجَهُ اللَّهُ عَنْهُ‘ (رواه احمد ۔ مشکوٰة باب اثبات القبر فصل ثالث ،ص:۲۶)
۲۔ کیا شیطان(ابلیس) قبر میں میت کے پاس آتا ہے یا نہیں؟
۳۔ کیا شیطان قبر میں سوال و جواب کے وقت میت کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے ؟
قبر پر اذان دینے سے شیطان بھاگ جاتا ہے اور میت کو جواب دینے میں آسانی ہو جاتی ہے۔ یہ دلیل بھی پیش کرتے ہیں۔
٭ محمد فیض احمد صاحب اویسی مصنف کتاب ’’قبر پر اذان ‘‘نے اذان دینے کو ثابت کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔ کتاب وسنت کی روشنی میں وضاحت فرمادیں اور حدیث ِ بالا کی بھی وضاحت کریں۔ (احقر العباد ، محمد ادریس بھوجیانی۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ) (۹ جولائی ۱۹۹۳ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قبر پر اذان دینا بدعت ہے کتاب و سنت اور سلف صالحین کے عمل سے اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ نبیﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:
’ مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا هٰذَا مَا لَیْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ ‘(صحیح البخاری،بَابُ إِذَا اصْطَلَحُوا عَلَی صُلْحِ جَوْرٍ فَالصُّلْحُ مَرْدُودٌ،رقم:۲۶۹۷)
’’ یعنی جو دین میں اضافہ کرے وہ مردود ہے۔‘‘
اور سوال میں ذکر کردہ حدیث کا زیرِ حدیث مسئلہ سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس سے مستدل کا قبر پر اذان دینے کے جواز پر استدلال کرنا اس کی جہالت اور لاعلمی کا مظہر ہے ۔ اس میں تو صحابی جلیل پر قبر تنگ ہونے کی بناء پر آپﷺ کا محض تسبیح و تکبیر میں سُبْحَانَ اللّٰهَ اور اَللّٰهُ اَکْبَر کہنے کا ذکر ہے۔ اس کے سبب اللہ رب العزت نے اس کی قبر کو فراخ کردیا تھا۔ پھر یہ کہاں ہے کہ مسنون و مشروع اذان بھی اس موقع پر کہی گئی۔ ﴿هَاتُوْا بُرْهَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ﴾ حدیث ہذا ’’مسند احمد‘‘ کے علاوہ ’’طبرانی کبیر‘‘ میں بھی موجود ہے۔ لیکن متکلم فیہ ہے۔ چنانچہ صاحب ’’مجمع الزوائد‘‘ فرماتے ہیں:
’ وَ فِیْهِ مَحْمُوْدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْجَمُوْح… قَالَ الْحُسَیْنِیُّ فِیْهِ نَظَرٌ‘
اس کے بعد والے جملہ سوالوں کاجواب یہ ہے کہ موت کے بعد والا گھر دارالجزاء ہے۔ دارالعمل نہیں ہے کہ شیطان کا آدمی کو ورغلانے یا غلبے کا موقع میسر آسکے۔ شیطانی بھاگ دوڑ صرف دنیا تک محدود ہے۔ چنانچہ ایک روایت میںہے۔ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
’اِنَّ الشَّیْطَانَ قَالَ وَ عِزَّتِكَ یَا رَبَّ لَا اَبْرَحُ اغوی عِبَادَكَ مَا دَامَت اَرْوَاحُهُمْ فِیْ اَجْسَادِهِمْ فََقَالَ الرَّبُ عَزَّوجَلَّ وَ عِزَّتِیْ وَ جَلَالِیْ وَ اِرْتِفَاع مَکانِیْ لَا اَزَال اَغْفِر لَهُم مَا استَغْفِرُوْنِی‘(مسند احمد ،رقم: ۱۱۲۳۷، بحواله مشکوٰة باب الاستغفار والتوبة)
’’تحقیق شیطان نے پروردگار سے عرض کیا اے میرے پروردگار تیری عزت کی قسم میں تیرے بندوں کو ہمیشہ گمراہ کرتا رہوں گا جب تک کہ ان کے ارواح ان کے بدنوں میں ہوں گے۔ پس پروردگار نے فرمایا مجھے اپنی بزرگی و عزت اور بلند مرتبہ کی قسم ہے کہ میں ان کو ہمیشہ بخشتار ہوں گا جب تک کہ مجھ سے بخشش مانگتے رہیں گے۔‘‘
لہٰذا بعد از موت شیطانی تسلّط یا بذریعہ اذان اس کو اس موقعہ پر بھگانے کا نظریہ بالکل فضول اور بے کار ہے۔ تارِ عنکبوت سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔﴿وَاللّٰهُ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَاءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْم﴾(البقرۃ: ۲۱۳)
واضح ہو کہ اہل بدعت کا ہمیشہ سے یہ شیوہ ہے کہ وہ اپنے خود ساختہ نظریات و عقائد کی ترویج کے لیے کتاب و سنت کی قطع و برید میں لگے رہتے ہیں۔ شاید کہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا مل جائے۔ دراصل فعلِ ہذا دین و دنیا کے اعتبار سے انتہائی خطرناک کھیل ہے۔﴿فَمَا رَبِحَت تِجَارَتُهُمْ وَ مَا کَانُوْا مُهْتَدِیْن﴾(البقرۃ:۱۶) اللہ رب العزت جملہ مسلمانوں کو رجوع الی الحق کی توفیق بخشے۔ آمین
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب