سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(105) کیا قبروں پر پھول چڑھانا ،قبر کو سجدہ کرنا وغیرہ شرک نہیں؟(ایک تقریر پر استفسار)

  • 25220
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1134

سوال

(105) کیا قبروں پر پھول چڑھانا ،قبر کو سجدہ کرنا وغیرہ شرک نہیں؟(ایک تقریر پر استفسار)

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آپ کی خدمت میں جناب پروفیسر حافظ محمد سعید صاحب (امیر مرکز الدعوۃ والارشاد) کی ایک تقریر کا کچھ حصہ ارسال ہے۔ جس میں انھوں نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ قبروں پر پھول چڑھانا، قبر کو سجدہ کرنا وغیرہ شرک نہیں؟ متن ساتھ منسلک ہے آپ سے استفسار ہے کہ:

1          کیا یہ موقف درست ہے ؟ قرآن کی اصطلاح کی روشنی میں جو شرک کی تعریف کی گئی ہے کیا یہ تعریف درست ہے ؟

2          کیا اہل کتاب مشرک نہیں ہیں؟

3          کیا پھول چڑھانا اور قبروں کو سجدہ کرنا کسی صورت میں بھی شرک نہیں ہے؟

تقریر کا متن:﴿ وَ مِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا…﴾ اور مشرکین سے کون لوگ مراد ہیں؟ مشرکین کی باقاعدہ اصطلاح قرآن کی اصطلاح ہے اوراس اصطلاح سے کون کون مراد ہیں؟ اس سے وہ لوگ مراد ہیں جو اللہ کی شریعتوں کو نہیں مانتے تھے۔ نہ وہ تورات کو ، نہ وہ انجیل کو، نہ وہ ان نبیوں کو اور نہ آخرت کو مانیں، نہ شریعت، نہ کتاب، نہ نبوت، نہ آخرت، جو ان کو سرے سے مانتے ہی نہیں تھے۔ ان کو قرآن مجید نے کیا کہا؟ مشرکین! یہ ہے مشرکین کی اصطلاح… یہاں میں ایک بات اور بھی واضح کردوں۔ بعض ہمارے بھائیوں کو ہو گی تو تکلیف! لیکن نئی بات کچھ پریشان کن بھی ہوتی ہے لیکن بات سمجھنے کی ہے ہمارے ہاں آج کل مشرکین کی اصطلاح کس کے لیے استعمال ہوتی ہے ؟ کلمہ گو مسلمان جو قبروں کے اوپر پھول چڑھانے لگ جائیں یا ایسے وہاں جناب! دئیے جلانے لگ جائیں کوئی غلط کوئی سجدہ کردے ان کو کیا کہتے ہیں؟ کہ ہم عام طور پر کہتے ہیں کہ جی یہ مشرکین ہیں۔ میرے بھائی! یہ مشرکین کی اصطلاح میں قرآن مجید کے اعتبار سے نہیں آئے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے عقیدوں میں خرابیاں ہیں ان کے لیے قرآن مجید میں اصطلاح فاسق کی موجود ہے۔ ان کے لیے اور مختلف قسم کی اصطلاحات قرآنِ مجید کے اندر موجود ہیں۔ قرآن میں مشرکین ان کو کہا گیا ہے جو نہ نبوت کو مانتے تھے نہ آخرت کو مانتے تھے نہ شریعت کو مانتے تھے ۔ ان کو اہل کتاب کے مقابلے میں مشرکین کہا گیا ہے۔ اور اس آیت میں بھی ان دونوں کا ذکر ہے۔ فرمایا:

﴿وَلَتَسمَعُنَّ مِنَ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ مِن قَبلِكُم وَمِنَ الَّذينَ أَشرَكوا أَذًى كَثيرًا...﴿١٨٦... سورة آل عمران


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سوالات کے مشترکہ جواب بالاختصار ملاحظہ فرمائیں:

یہ اصطلاح غیر درست ہے کیونکہ قرآن نے یہود و نصاریٰ کی طرف بھی ان اعمال مذکورہ کی نسبت کی ہے اور انھیں مشرک بھی کہا ہے۔ بطورِ مثال ملاحظہ ہو: (التوبة :۲۹،۳۰،۳۱ اور المائدۃ: ۷۲،۷۳)

لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ عام مشرکوں کی نسبت بعض مسائل میں قرآن کریم نے ان سے امتیازی سلوک کیا ہے۔ اس بناء پر قرآن کے کئی ایک مقامات میں ان کو عام مشرکوں کے مقابلہ میں کتابی نسبت سے یاد کیا گیا ہے۔ تاہم صرف کتابی نسبت سے اس دھوکہ میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ یہ مشرک نہیں۔ بلاشبہ یہ بھی مشرک ہیں، جس طرح قرآنی آیات میں مصرح ہے۔

غالباً اسی وجہ سے میرے عزیز تلمیذ پروفیسر حافظ محمد سعید صاحب (امیر مرکز الدعوۃ والارشاد) کو غلطی لگ گئی کہ وہ مسلمان جن کی نسبت قرآن و اسلام کی طرف ہے وہ بھی مشرک نہیں ہو سکتے چاہے جتنے مرضی اعمال شرکیہ کے مرتکب ہوں۔ شاید اسی نظریے کی بناء پر جہادِ کشمیر میں وہ ایک قبوری تنظیم سے متعاون ہیں جس کا سلفی تنظیم سے ذہنی بُعد ہے۔

بھلا کون نہیں جانتا کہ غیر اللہ کے نام نذر و نیاز اور قبروں پر سجدہ ریز ہونا شرک ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿قُل إِنَّ صَلاتى وَنُسُكى وَمَحياىَ وَمَماتى لِلَّهِ رَبِّ العـٰلَمينَ ﴿١٦٢ لا شَريكَ لَهُ وَبِذ‌ٰلِكَ أُمِرتُ وَأَنا۠ أَوَّلُ المُسلِمينَ ﴿١٦٣﴾... سورة الأنعام

’’آپ کہہ دیجیے ! کہ میری نماز، میری قربانی اور میرا جینا ، مرنا سب اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی بات کا حکم ملا ہے اور میں سب سے اوّل فرمانبردار ہوں۔‘‘

یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ سجدہ اور ذبح عبادت ہے اور یہ حق غیر اللہ کودینا شرک ہے حدیث میں ہے:

’لَعَنَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ سَلَّمَ زَائِرَاتِ الْقُبُوْرِ وَالمُتَّّخِذِیْنَ عَلَیْهَا الْمَسَاجِدَ وَالسُّرُجَ ‘(سنن ابی داؤد،بَابٌ فِی زِیَارَةِ النِّسَاء ِ الْقُبُورَ،رقم:۳۲۳۶، سنن الترمذی،بَابُ مَا جَاءَ فِی کَرَاهِیَةِ أَنْ یَتَّخِذَ عَلَی القَبْرِ مَسْجِدًا،رقم: ۳۲۰ ،سنن النسائی،رقم:۲۰۴۳)

مرعاۃ المفاتیح(۴۹۸/۱) میں ہے:

’ وَ فِیْهَ رَدٌّ صَرِیْحٌ عَلَی الْقُبُوْرُیِّیْنَ الَّذِیْنَ یَبْنُوْنَ الْقُبَابَ عَلَی الْقُبُوْرِ وَ یَسْجُدُوْنَ اِلَیْهَا وَ یَسْرُجُوْنَ وَ یَضَعُوْنَ الزُّهُوْرَ وَ الرِّیَا حِیْنَ عَلَیْهَا تَکْرِیْمًا وَ تَعْظِیْمًا لِاَصْحَابِهَا ‘

’’یعنی اس حدیث میں صریح ردّ ہے ان قبوریوں کا جو قبروں پر قبے تعمیر کرتے، انھیں سجدہ کرتے ان پر چراغاں کرتے، اور اصحابِ قبور کی تعظیم و تکریم کرتے ہوئے ان پر پھول چڑھاتے ہیں۔‘‘

المرعاۃ(۲۲۴/۱) میں ہے:

’’اور یہ قبوری لوگ جو قبروں پر پھول ڈالتے ہیں اور درخت لگاتے ہیں اور غلاف چڑھاتے ہیں پھر ان پر خوشبو بکھیرتے ہیں اور ان پر چراغ جلاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بدعت اور گمراہی کے کام ہیں۔‘‘

لہٰذا موصوف کو میرا مشورہ ہے کہ اپنے غلط موقف پر دلائل دینے اور اس کی توجیہ و تاویل کرنے کی بجائے اس سے رجوع کریں۔ اسی میں آپ کی عظمت و شان ہے۔ ان شاء اللہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کا مشہور مقولہ ہے:

’ مَرَاجَعَةُ الْحَقِّ خَیْرٌ مِّنَ التَّمَادِی فِی الْبَاطِلِ ‘  (اعلام الموقعین)

’’باطل پر اصرار سے بہتر ہے کہ انسان حق کی طرف رجوع کرے۔‘‘

اللہ رب العزت سب کو اخلاص کی توفیق بخشے۔آمین

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الجنائز:صفحہ:156

محدث فتویٰ

تبصرے