ننگے سر نماز پڑھنے کے بارے میں وضاحت فرمائیں؟
____________________________________________________________________
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : «لَا یَقْبَلُ اللّٰہُ صَلوة حَائِضٍ اِلاَّ بِخِمَارٍ»
’’اللہ تعالیٰ نہیں قبول فرماتا بالغہ عورت کی نماز بغیر اوڑھنی کے ۔‘‘ (ابوداؤد،الصلاة، باب المرأۃ تصلی بغیر خمار)
جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ننگے سر مرد کی نماز ہو جاتی ہے اس لیے کوئی مرد اگر کسی موقع پر ننگے سر نماز پڑھتا ہے تو اس پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا ۔ ہاں اگر وہ ننگے سر نماز پڑھنے کو واجب یا سنت یا افضل قرار دیتا ہے تو ا س سے اس کے اس دعویٰ کی دلیل طلب کی جا سکتی ہے۔
پگڑی یا خمار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس میں شامل ہے ۔ چنانچہ کسی حدیث میں آتا ہے: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ معظمہ میں داخل ہوئے تو آپ کے سر پر سیاہ پگڑی تھی۔‘‘ (مسلم،کتاب الحج،باب جواز دخول مکة بغیر احرام، ترمذی،اللباس،باب العمامة، السوداء، ابو داؤد، اللباس،باب فی العمائم)
کسی حدیث میں آتا ہے:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضوء کیا اور آپ نے اپنی پگڑی پر مسح کیا۔‘‘ (بخاری،الوضوء، باب المسح علی الخفین، مسلم،الطہارة، باب المسح علی الناصیة والعمامة)
اس لیے انسان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طریقہ کے پیش نظر عام حالات میں سر پر پگڑی یا خمار رکھنا چاہیے ، پھر مقام غور ہے بھلا یہ کہیں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضوء کے وقت تو پگڑی یا خمار پر مسح فرمایا اور نماز پڑھتے وقت پگڑی یا خمار کو اُتار کر رکھ لیا ؟ یا ویسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر پر پگڑی باندھی ہوئی تھی یا خمار تو آپ کے سر پر تھا مگر جب آپ نماز پڑھنے لگے تو پگڑی یا خمار کو اُتار کر ایک طرف کیا۔ ٹھیک ہے مرد کی نماز ننگے سر ہو جاتی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بسا اوقات ننگے سر نماز پڑھی ہے اس میں کوئی شک نہیں مگر ننگے سر نماز پڑھنے یا ننگے سر رہنے کو معمول اور عادت بنانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔