سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(95) قبر کیسی بنانی چاہیے؟ کیا اس کی مرمت کرنی چاہیے؟

  • 25210
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1933

سوال

(95) قبر کیسی بنانی چاہیے؟ کیا اس کی مرمت کرنی چاہیے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قبر کیسی بنانی چاہیے ؟ کیا اس کی مرمت کرنی چاہیے؟ حوالہ کے ساتھ جواب دیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قبر کو گہرا اور فراخ اور اچھا بنانا چاہیے۔ حدیث میں ہے:

’احْفِرُوا، وَأَوْسِعُوا، وَأَحْسِنُوا۔‘(سنن ابن ماجه ،بَابُ مَا جَاء َ فِی حَفْرِ الْقَبْرِ،رقم:۱۵۶۰والترمذی:رقم:۱۷۱۳، وابوداؤد:رقم:۳۲۱۵، سنن النسائی:۲۰۱۶، بحواله مشکوٰة باب دَفْنِ الْمَیِّتِ، ورواه احمد)

نیز قبر کو بغلی یا صندوقچی کی صورت میں دونوںطرح بنانا جائز ہے۔ لیکن افضل یہ ہے کہ بغلی بنائی جائے کیونکہ رسول اللہﷺ کے لیے بغلی بنی تھی۔(رواہ فی شرح السنۃ)

بحوالہ مشکوٰۃدوسری روایت میں ہے:

’اللَّحْدُ لَنَا، وَالشَّقُّ لِغَیْرِنَا۔‘ (سنن ابن ماجه، بَابُ مَا جَاء َ فِی اسْتِحْبَابِ اللَّحْدِ،رقم:۱۵۵۴، سنن الترمذی،بَابُ مَا جَاءَ فِی قَوْلِ النَّبِیِّ ﷺ اللَّحْدُ لَنَا، وَالشَّقُّ لِغَیْرِنَا،رقم:۱۰۵۴)

’’یعنی لحد ہمارے لیے ہے اور شق یعنی صندوقچی قبر ہمارے غیر کے لیے ہے۔‘‘

’’فتح الباری‘‘ میں ہے:

’وَهُوَ یُؤَیِّدُ فَضِیلَةَ اللَّحْدِ عَلَی الشَّقِّ وَاللَّهُ أَعْلَمُ۔‘ (فتح الباری: ۲۱۸/۳)

’’بحرالرائق‘‘ میں ہے کہ قبر ایک بالشت یا چار انگل کوہان نما ہو اور صحیح میں جو حضرت علی رضی اللہ عنہ  کی روایت میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ جس قبر کو بلند دیکھو برابر کردو۔‘‘ (صحیح مسلم،بَابُ الْأَمْرِ بِتَسْوِیَۃِ الْقَبْرِ، رقم:۹۶۹)

اس سے مراد وہ قبر ہے جو ایک بالشت سے زائد ہو۔ اور ’’النہر الفائق‘‘ میں ہے کہ کوہان نما ہو یعنی بلند ہو۔ بعض کہتے ہیں : چار انگل کے برابر ہو کیونکہ بخاری میں سفیان سے ہے۔ وہ فرماتے ہیںکہ آنحضرتﷺ کی قبرکوہان نما تھی۔ امام ابوحنفیہ رحمہ اللہ ، مالک رحمہ اللہ ، احمد رحمہ اللہ ، مزنی رحمہ اللہ  اور بہت سارے شوافع کا مسلک یہی ہے کہ قبر کوہان نما ہونی چاہیے۔ لیکن امام بیہقی نے کہا ہے کہ سفیان تمار کے قول میں حجت نہیں کیونکہ یہ کبار اتباع تابعین سے ہے ۔ اس نے صحابہ رضی اللہ عنہم  کے عہد کو پایا ہے لیکن کسی سے روایت نہیں۔)

احتمال ہے کہ ابتدائی امر میں قبرکوہان کی صورت میں ہو۔ پھر انھوں نے قاسم بن محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ  سے ’’سنن ابی داؤد‘‘ اور ’’حاکم‘‘ میں مروی قصہ سے تائید لی ہے اور دیگر شواہد بھی پیش کیے ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

’ثُمَّ الِاخْتِلَافُ فِی ذَلِكَ فِی أَیِّهِمَا أَفْضَلُ لَا فِی أَصْلِ الْجَوَازِ ۔‘

’’یعنی کوہان نما قبر یا سطح برابر کی قبر بنانا دونوں طرح جائز ہے۔ اختلاف صرف اس میں ہے کہ دونوں صورتوں میں سے بہتر کونسی ہے۔‘‘

مزنی اور ابن قدامہ نے کوہان نما کو ترجیح دی ہے۔ لیکن ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: سطح برابر قبر فضالہ بن عبید کی حدیث جو’’صحیح مسلم‘‘میں ہے، کی بناء پر قابلِ ترجیح ہے:

’أَنَّهُ أَمَرَ بِقَبْرٍ فَسُوِّیَ ثُمَّ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَأْمُرُ بِتَسْوِیَتِهَا۔‘ (فتح الباری:۲۵۷/۳)

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الجنائز:صفحہ:149

محدث فتویٰ

تبصرے