سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(85) کسی شخصیت کی مختلف شہروں میں غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کرنا

  • 25200
  • تاریخ اشاعت : 2024-10-30
  • مشاہدات : 712

سوال

(85) کسی شخصیت کی مختلف شہروں میں غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ بعض دفعہ جب کوئی بااثر شخص فوت ہوجاتا ہے تو اس کی میت پر نمازِ جنازہ پڑھی جانے کے بعد مختلف شہروں میں اس کی غائبانہ نمازِ جنازہ بھی پڑھی جاتی ہے۔ کیا حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما  جیسی بزرگ ہستیوں کے لیے بھی کسی شہر میں ایسی غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھی گئی تھی؟ اور اگر نہیں پڑھی گئی تھی تو کیوں نہیں پڑھی گئی؟

براہِ مہربانی ایسی غائبانہ نمازِ جنازہ کے بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے طرزِ عمل کی وضاحت فرمائیں۔ یعنی سوال یہ ہے کہ کیا کوئی ایک بھی ایسی مثال موجود ہے جس سے ثابت ہوتا ہو کہ کسی وفات یافتہ کی میت پر نمازِ جنازہ پڑھی جانے کے بعد دوسرے شہر یا گاؤں میں کسی صحابی نے اس کی غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھائی ہو؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اسلامی تاریخ میں واقعی اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ خلفائے راشدین، مشاہیر صحابہ وغیرہم فوت ہوئے، لیکن کسی مسلمان نے ان پر غائبانہ نمازِ جنازہ ادا نہیں کی۔ کیونکہ اگر کسی نے ادا کی ہوتی تو ان سے تواتر کے ساتھ منقول ہوتا، بلکہ علامہ ناصر الدین البانی تو اس رواج کو بدعت سے تعبیر کرتے ہیں۔ چنانچہ احکام الجنائز میں اس پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’ اِنَّهَا مِنَ البِدَعِ الَّتِی لَا یَمتَرِی فِیهَا عَالِمٌ بِسُنَّتِهٖ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ  وَمَذهَبِ السَّلَفِ رَضِیَ اللّٰهُ عَنهُم۔‘ احکام الجنائز ، لشیخنا مفتی محمد عبدہ،ص:۴۷

یعنی’’ یہ وہ بدعت ہے جس میں سنت اور مذہب سلف صالحین سے باخبر کوئی عالم بھی شبہ نہیں کر سکتا۔‘‘

حافظ ابن قیم رحمہ اللہ  نے ’’زاد المعاد‘‘ میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ  کی رائے یوں نقل کی ہے، کہ غائب میت اگر ایسی سَر زمین میں فوت ہوئی جس پر نمازِ جنازہ نہ پڑھی گئی ہو تو اس پر غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھی جائے جیسا کہ آنحضرتﷺ نے نجاشی پر غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھی۔ اگر نمازِ جنازہ پڑھی جاچکی ہو تو اس پر غائبانہ نمازِ جنازہ نہ پڑھی جائے۔ (احکام الجنائز ، لشیخنا مفتی محمد عبدہ،ص:۴۷)

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الجنائز:صفحہ:143

محدث فتویٰ

تبصرے