سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(79) شہید معرکہ کی نمازِ جنازہ

  • 25194
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1102

سوال

(79) شہید معرکہ کی نمازِ جنازہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

محترم یہ تین سوالات درپیش ہیں، جو صحیح تحقیق نہ ہونے کی وجہ سے میرے لیے بہت الجھ گئے ہیں، لہٰذا آپ ان کی شرع متین کے حوالے سے دلیل کے ساتھ ہر مسئلے کی صحیح سورت واضح فرمادیں۔

۱۔         نبی کریمﷺ یا خلفائے راشدین میں سے کسی نے شہید معرکہ کا جنازہ پڑھا ہے یا نہیں؟

۲۔        آپ نے اپنے شاگرد عزیز مولانا خالد سیف شہید کا جنازہ نہیں پڑھا تھ ، نہ پڑھنے کی کیا وجہ تھی؟

۳۔        کسی کا غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھنے کی کون سی شرائط ہیں؟ نیز کسی شہید کے غائبانہ جنازہ کی اطلاع دینے کے لیے اشتہار چھپوانے، بینرز لگوانے اور وال چاکنگ کرنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ (مبشر علی، نائب خطیب، جامع مسجد ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، لاہور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سائل نے جو سوالات کیے ہیں ان کے بارے میں مندرجہ ذیل باتیں زیر غور رہیں تو مسئلہ کھل کر سامنے آجاتا ہے۔

۱۔         شہید معرکہ کی نمازِ جنازہ شریعت میں ہے یا نہیں؟

۲۔        آج کل کشمیر وغیرہ میں شہید ہونے والوں کی غائبانہ نمازِ جنازہ کے جو اعلانات اشتہارات وغیرہ کے ذریعہ سے کیے جاتے ہیں، کیا وہ شرعیت کے منافی ہیں؟

۳۔        تحریک مجاہدین اسلام کے امیر مرحوم مولانا خالد سیف شہید کی نمازِ جنازہ کیوں نہ پڑھی گئی صرف دعاء پر اکتفاء کیوں کیا گیا تھا؟

سوال نمبر1 کا جواب شہید معرکہ کے بارے میں نمازِ جنازہ اگرچہ اختلافی مسئلہ ہے لیکن اس بارے میں وارد تمام احادیث جمع کرکے دیکھا جائے تو راجح رائے یہی ہے کہ رسولِ کریمﷺ نے شہید معرکہ کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھی۔ مختصر طور پر احادیث درجہ ذیل ہیں:

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَجْمَعُ بَیْنَ الرَّجُلَیْنِ مِنْ قَتْلَی أُحُدٍ فِی ثَوْبٍ وَاحِدٍ، ثُمَّ یَقُولُ: أَیُّهُمْ أَکْثَرُ أَخْذًا لِلْقُرْآنِ، فَإِذَا أُشِیرَ لَهُ إِلَی أَحَدِهِمَا قَدَّمَهُ فِی اللَّحْدِ، وَقَالَ: أَنَا شَهِیدٌ عَلَی هَؤُلاَءِ یَوْمَ القِیَامَةِ، وَأَمَرَ بِدَفْنِهِمْ فِی دِمَائِهِمْ، وَلَمْ یُغَسَّلُوا، وَلَمْ یُصَلَّ عَلَیْهِمْ‘(فتح الباری،ج:۳،ص:۲۰۹، صحیح البخاری،بَابُ الصَّلاَةِ عَلَی الشَّهِیدِ، رقم: ۱۳۴۳)

’’ نبی اکرمﷺ شہداء احد کی تکفین کے لیے دو دو آدمیوں کو ایک کپڑے میں جمع کرتے تھے پھر پوچھتے کہ ان میں سے کس کو قرآن زیادہ آتا تھا پھر جس کے بارے میں بتایا جاتا، اسے لحد میں آگے رکھتے اور کہتے کہ قیامت کے دن ان لوگوں پر گواہ ہوں گا۔اسی طرح آپﷺ نے ان کی تدفین خون میں لتھڑے ہوئے کرنے کا حکم صادر فرمایا، انھیں غسل دیا گیا اور نہ اسے کی نمازِ جنازہ  پڑھی گئی۔‘‘

اس کی تائید حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ  کے بیان سے بھی ہوتی ہے کہ شہداء احد کو بغیر غسل خون میں لتھڑے ہوئے دفن کیا گیا تھا اور ان کی نماز جنازہ نہیں پڑھی گئی تھی۔(احمد ، ابوداؤد، ترمذی) شہداء احد کے بارے میں نمازِ جنازہ کی عدم ادائیگی پر دلالت کرنے والی احادیث اتنی زیادہ ہیں کہ امام شافعی رحمہ اللہ  نے انھیں متواتر قرار دیا ہے۔( فتح الباری،ج:۳،ص:۲۱۰، بحوالہ کتاب الام للشافعی)

خلافت ِ راشدہ اور بعد کے ادوار مین شہدائے معرکہ کی نمازِ جنازہ کا رواج نہیں ہوا۔ کجا یہ کہ غائبانہ جنازہ ہو۔ امام ابن قیم فرماتے ہیں کہ’’رسولِ کریمﷺ نے احد کے شہداء پر نمازِ جنازہ نہیں پڑھی اور یہ بھی معروف نہیں کہ آپﷺ نے دیگر غزوات میں اپنے کسی ساتھی شہید ہونے والے کی نمازِ جنازہ پڑھی ہو۔ اسی طرح بعد ازاں خلفائے رشدین اور ان کے ماتحت حکام کا طرزِ عمل رہا ہے۔‘‘(زاد المعاد، ج:۲، ص:۹۸)

حاصل یہ ہے کہ مسلمانوں کو سنت رسولﷺ اور خلفائے راشدین کو ہی اپنا رواج بنانا چاہیے۔ حنفیہ اور بعض حنابلہ جو شہید معرکہ کی نمازِ جنازہ کی مشروعیت کے قائل ہیں، ان کے دلائل کا جائزہ سطور ذیل میں ملاحظہ فرمائیں:

(۱) عَنْ شَدَّادِ بْنِ الْهَادِ، أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَعْرَابِ جَاء َ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَآمَنَ بِهِ وَاتَّبَعَهُ، ثُمَّ قَالَ: أُهَاجِرُ مَعَكَ، فَأَوْصَی بِهِ النَّبِیُّ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بَعْضَ أَصْحَابِهِ، فَلَمَّا کَانَتْ غَزْوَةٌ غَنِمَ النَّبِیُّ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سَبْیًا، فَقَسَمَ وَقَسَمَ لَهُ، فَأَعْطَی أَصْحَابَهُ مَا قَسَمَ لَهُ، وَکَانَ یَرْعَی ظَهْرَهُمْ، فَلَمَّا جَاء َ دَفَعُوهُ إِلَیْهِ، فَقَالَ: مَا ہَذَا؟، قَالُوا: قِسْمٌ قَسَمَهُ لَكَ النَّبِیُّ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذَهُ فَجَاء َ بِهِ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَا ہَذَا؟ قَالَ: قَسَمْتُهُ لَكَ، قَالَ: مَا عَلَی هَذَا اتَّبَعْتُكَ، وَلَکِنِّی اتَّبَعْتُكَ عَلَی أَنْ أُرْمَی إِلَی هَاهُنَا، وَأَشَارَ إِلَی حَلْقِهِ بِسَهْمٍ، فَأَمُوتَ فَأَدْخُلَ الْجَنَّةَ فَقَالَ: إِنْ تَصْدُقِ اللَّهَ یَصْدُقْكَ، فَلَبِثُوا قَلِیلًا ثُمَّ نَهَضُوا فِی قِتَالِ الْعَدُوِّ، فَأُتِیَ بِهِ النَّبِیَّ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُحْمَلُ قَدْ أَصَابَهُ سَهْمٌ حَیْثُ أَشَارَ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَهُوَ هُوَ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: صَدَقَ اللَّهَ فَصَدَقَهُ، ثُمَّ کَفَّنَهُ النَّبِیُّ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی جُبَّةِ النَّبِیِّ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَدَّمَهُ فَصَلَّی عَلَیْهِ، فَکَانَ فِیمَا ظَهَرَ مِنْ صَلَاتِهِ: اللَّهُمَّ هَذَا عَبْدُكَ خَرَجَ مُهَاجِرًا فِی سَبِیلِكَ فَقُتِلَ شَهِیدًا أَنَا شَهِیدٌ عَلَی ذَلِكَ۔‘ سنن النسائی،الصَّلَاةُ عَلَی الشُّهَدَاء ِ ،رقم:۱۹۵۳(مترجم،ج:۱،ص:۲۲۳۔۲۲۴

’’شداد بن ہاد سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی آدمی نبی اکرمﷺ کے پاس حاضر ہو کر ایمان لایا اور آپﷺ کا پیروکار بن گیا، پھر کہا کہ میں آپﷺ کے ساتھ ہجرت کرتا ہوں۔ آپ ﷺ نے اس کے بارے میں دھیان رکھنے کا ارشاد فرمایا پھر جب وہ معرکہ پیش آیا جس میں نبی اکرمﷺ کو مالِ غنیمت حاصل ہوا تو آپﷺ نے اس کا حصہ اس کے ساتھیوں کے ہاتھ دیا، کیونکہ وہ ان کے جانور چروایا کرتا تھا جب صحابہ اسے غنیمت میں حصہ دینے کے لیے آئے تو اس نے پوچھا یہ کیسا مال ہے؟ انھوں نے جواب دیا کہ نبی اکرمﷺ نے تجھے بھی مالِ غنیمت سے حصہ دیا ہے ۔ چنانچہ وہ اسی حصہ کو لیے ہوئے اللہ کے رسولﷺ کے پاس آیا، کہنے لگا کہ یہ مال کیسا ہے؟ آپﷺ نے مالِ غنیمت میں سے حصہ دینے کی بات کہی تو کہنے لگا کہ میں اس بنا پر آپﷺ کی پیروی نہیں کر رہا۔ بلکہ میں چاہتا ہوں کہ مجھے حلق میں تیر لگے اور موت آئے تو جنت میں داخل ہوجاؤں، آپﷺ نے فرمایا اگر تو اللہ سے مخلص ہے تو اللہ اسے سچ کردے گا۔ صحابہ تھوڑی دیر ٹھہرے پھر دشمن سے لڑنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے،کچھ دیر بعد اس شخص کو اٹھائے ہوئے نبی اکرمﷺ کے پاس حاضر ہوئے کہ اسے حلق میں ہی تیر لگا ہوا تھ۔ آپﷺ نے فرمایا کیا یہ وہی شخص ہے ۔ صحابہ نے ہاں میں جواب دیا۔ آپﷺ نے فرمایا وہ اللہ سے مخلص تھا اور اللہ نے سچ کردیا۔ پھر آپﷺ نے اسے اپنے چوغے میں کفن دیا اور آگے رکھ کر نمازِ جنازہ پڑھی جس میں یہ الفاظ بھی کہے: اے اللہ یہ تیرا بندہ تیرے رستے میں ہجرت کرتے ہوئے نکلا، پھر شہادت حاصل کی، میں اس پر گواہ ہوں۔‘‘

جواب:   امام بیہقی نے صحیح متواتراحادیث کے بالمقابل اس دیہاتی کی نمازِ جنازہ کے بارے میں مروی حدیث کے بارے میں یہ احتمال پیش کیا ہے کہ اس کی وفات معرکہ کے بعد ہوئی تھی، اسی لیے ، اس کی نمازِ جنازہ پڑھی گئی۔ مرعاۃ،ج:۲،ص:۴۸۶

اس کی تائید اس قرینہ سے بھی ہوتی ہے کہ رسولﷺ معرکہ کے بعد مالِ غنیمت بھی تقسیم کر چکے تھے، پھر اس کی شہادت ہوئی ہے۔

’ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ: أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ یَوْمًا، فَصَلَّی عَلَی أَهْلِ أُحُدٍ صَلاَتَهُ عَلَی المَیِّتِ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَی المِنْبَرِ، فَقَالَ: إِنِّی فَرَطٌ لَکُمْ، وَأَنَا شَهِیدٌ عَلَیْکُمْ، وَإِنِّی وَاللَّهِ لَأَنْظُرُ إِلَی حَوْضِی الآنَ، وَإِنِّی أُعْطِیتُ مَفَاتِیحَ خَزَائِنِ الأَرْضِ ۔أَوْ مَفَاتِیحَ الأَرْضِ ۔ وَإِنِّی وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَیْکُمْ أَنْ تُشْرِکُوا بَعْدِی، وَلَکِنْ أَخَافُ عَلَیْکُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِیهَا(صحیح البخاری، رقم:۱۳۴۴، فتح الباری، ج:۳، ص:۲۰۹)

’’عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ ایک دن باہر آئے اور آپ نے احد میں شہیدہونے والوں پر وہی نماز پڑھی جو میت پر پڑھی جاتی ہے پھر آپ نے منبر کی طرف رخ کیا …الخ

یہاں حنفیہ کی رائے کے مطابق اگرچہ ترجمہ ’’شہداء احد پر نمازِ جنازہ پڑھنے‘‘ کا کیا گیا ہے لیکن ’’صلاۃ علی‘‘ کا مفہوم صرف نماز جنازہ نہیں ہوتا بلکہ دعاء بھی ہوتا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:

﴿ وَ صَلِّ عَلَیْهِمْ اِنَّ صَلٰوتَكَ سَکَنٌ لَّهُمْ﴾(التوبۃ:۱۰۳)

’’یعنی نبی اکرمﷺ کو صدقہ دینے والوں پر دعاء خیر کی تلقین کی گئی ہے اس آیت میں وارد ’’ صَلِّ عَلَیْهِمْ ‘‘کے الفاظ سے کسی کے نزدیک بھی نمازِ جنازہ مراد نہیں لہٰذا یہ کہنا غلط ہے کہ ’’صلاۃ علی‘‘ کی اصطلاح نمازِ جنازہ کے لیے مخصوص ہو گئی ہے۔

واضح رہے کہ مذکورہ حدیث میں جس نماز یا دعاء کا ذکر ہے وہ واقعہ متفقہ طور پر جنگِ احد کے تقریباً آٹھ سال بعد کا ہے ، اس لیے وہاں مراد نمازِ جنازہ نہیں بلکہ وہی الفاظ دعا ہیں جو عموماً نمازِ جنازہ میں پڑھے جاتے ہیں، اس کی تائید حدیث مذکورہ میں وارد ان الفاظ سے بھی ہوتی ہے کہ اس دعاء کے بعد رسول اللہﷺ نے منبر کا رُخ کیا جو اس بات کی دلیل ہے کہ واقعہ مسجد نبوی کا ہے نہ کہ مقامِ احد پر جا کر نماز پڑھنے کا۔

(۳) ان صحیح احادیث کے علاوہ بعض دیگر روایات حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ  کی بہتر(۷۲) مرتبہ نماز جنازہ کا پڑھنے کے بارے میں ذکر کی جاتی ہیں جن کے ساتھ ان روایات کو ملایا جائے جن میں شہداء احد کی نمازِ جنازہ میں نو نو یا دس دس اکٹھے شہداء کی نمازِ جنازہ کا ذکر ہے تو بات یہی کھلتی ہے کہ حضرت حمزہ کی بہتر(۷۲) مرتبہ نمازِ جنازہ والی روایت درست نہیں کیونکہ کل شہداء احد ہی بہتر (۷۲) تھے حالانکہ اس طرح لازم آئے گا کہ شہداء احد سینکڑوں کی تعداد میں ہوں۔ نیز جو لوگ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ  کی صحیح بخاری والی روایت سے آٹھ سال بعد نمازِ جنازہ ثابت کرتے ہیں ، ان کو غور کرنا چاہیے کہ شہدائے احد کی معرکہ سے متصل نمازِ جنازہ والی روایات کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟ اہل مدینہ، امام شافعی، اور بیہقی نے ایسے تمام معارضات نقل کرکے شہید کی نمازِ جنازہ کی بجائے دعائے خیر کا مسلک اختیار کیا ہے اور وہی راجح ہے۔

اہل حدیث کو تمام احادیث جمع کرکے صحیح مسلک اختیار کرنا چاہیے۔ احادیث کا ٹکراؤ پیدا کرکے اپنا مطلب نکالنا درست نہیں۔

سوال نمبر(۲) کا جواب : آج کل بعض جماعتیں اپنے مخصوص گروہی مقاصد کے لیے کشمیر وغیرہ میں شہید ہونے والوں کی غائبانہ نمازِ جنازہ کے لیے وہ تمام اشتہاری وسائل اختیار کرتی ہیں جو سیاستدان انتخابی سیاست میں استعمال کرتے ہیں۔ حالانکہ کسی کی موت پر یہ انداز اعلان اس جاہلیت کی مذموم نعی(موت کا اشتہار دینا) میں شامل ہے جس کی ممانعت احادیث میں صراحتاً آئی ہے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ  اسی احتیاط کے پیش نظر موت کی اطلاع اقرباء تک کو بھی نہ دیتے تھے کہ کہیں نعی نہ بن جائے۔ کسی کی موت کی خبر کی حد تک اس کے رشتے داروں اور قریبی احباب کو اطلاع دینے کا جواز تو موجود ہے لیکن اس طرح کی اشتہار بازی شریعت میں سخت ناپسندیدہ ہے۔ غائبانہ نمازِ جنازہ کے بارے میں اگرچہ دلائل کا رجحان جواز کی طرف ہی ہے لیکن اگر نعی کی مذکورہ بالا صورت دیکھی جائے تو ایسے غائبانہ نماز جنازہ کی بھی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے ۔ شریعت کے مسائل میں مقاصد شریعت کی بڑی اہمیت ہے۔ فتویٰ ان کی روشنی میں ہی دینا جانا چاہیے۔

سوال نمبر(۳) کا جواب: مرحوم مولانا خالد سیف شہید کی شہادت قابلِ رشک تھی، ان کی میت بھی جامعہ رحمانیہ لاہور میں پہنچ گئی تھی۔اس موقع پر ہائی کورٹ کے کئی جج اور دیگر اہم شخصیات موجود تھیں۔ سنت کے مطابق ان کو نہ تو غسل دیا گیا اور نہ ان کی نمازِ جنازہ پڑھی گئی۔ احباب کے اکٹھے ہونے کی بناء پر دعا کر لی گئی تھی۔

انسان کی موت برحق ہے اور شہادت ایک اعزاز بھی تاہم رسول اللہﷺ نے صحابہ کی شہادت پر کبھی خوشی نہیں منائی بلکہ جعفر طیار رضی اللہ عنہ  کے حادثہ کے بعد ایک عرصہ تک آپ کے چہرے پر غمی کے آثار نمایاں رہے۔ جو لوگ شہداء کی موت پر خوشیاں مناتے ہیں، انھیں غور کرنا چاہیے کہ آج اگر کسی دوسرے کا بھائی بیٹا شہید ہوا تو کل یہی واقعہ ان کے ساتھ بھی پیش آسکتا ہے ، ان کا ایمان نبیﷺ اور ان کے صحابہ سے زیادہ نہیں ہے کیونکہ موت کا صدمہ ایک فطری امر ہے۔ ’اِنَّمَا یَرْحَمُ اللّٰہِ مِنْ عِبَادِہِ الرُّحَمَاء‘۔ مذکور بالا نکات کی روشنی میں ہمارا طرزِ عمل درست سمت نہیں جا رہا، اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔ آمین

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الجنائز:صفحہ:136

محدث فتویٰ

تبصرے