سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(73) مرزائی کی نمازِ جنازہ اور مسلم قبرستان میں دفن کا مسئلہ

  • 25188
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-18
  • مشاہدات : 593

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک آدمی مرزائی مر گیا اور اسی حالت میں فوت ہوگیا۔ بعض مسلمانوں نے اس کے جنازہ میں شرکت بھی کی اور اسے دفن بھی مسلمانوں کے قبرستان میں ہی کیا گیا۔

اس کے جنازہ میں شریک ہونے والے مسلمانوں کے بارے میں کیا حکم ہے اورکیا اسے مسلمانوں کے قبرستان میں ہی دفن رہنے دیا جائے یا اُسے نکال کر دوسرے قبرستان میں دفن کیاجائے؟ (عبیدالسلام۔سرگودھا) (۸ مئی ۱۹۹۲ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مرزائی بلاشبہ کافر ہیں۔ ان سے مسلمانوں جیسا تعلق قائم کرنا بھی حرام ہے۔ قرآن مجید میں ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَتَّخِذوا عَدُوّى وَعَدُوَّكُم أَولِياءَ تُلقونَ إِلَيهِم بِالمَوَدَّةِ وَقَد كَفَروا بِما جاءَكُم مِنَ الحَقِّ... ﴿١﴾... سورة الممتحنة

’’مومنو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بناؤ۔ تم تو ان کو دوستی کے پیغام بھیجتے ہو۔ اور وہ(دین) حق سے جو تمہارے پاس آیا ہے، منکر ہیں۔‘‘

لہٰذا جن مسلمانوں نے ایک مرزائی کے جنازہ میں شرکت کی وہ شدید ترین کبیرہ گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں۔ انھیں فوراً اپنے جرم پر نادم ہو کر رب کے حضور توبۂ نصوحہ کرنی چاہیے۔ بصورتِ دیگر عقابِ الٰہی کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ حدیث میں ہے:اَلْمَرْئُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ ‘(صحیح البخاری،بَابُ عَلاَمَةِ حُبِّ اللَّهِ عَزَّ ،رقم:۶۱۶۸)

’’یعنی آدمی روزِ جزا اس کے ساتھ ہو گا جس سے اُسے پیار ہو گا۔‘‘

مرزائیوں کے بارے میں نرم گوشہ اختیار کرکے ان کے جنازہ میں شرکت کرنا بھی محبت ہی کی ایک شکل ہے۔  نَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا۔ نیزمذکور شخص کی لاش کو مسلم قبرستان سے نکال کر اس کے مناسب حال جگہ میں دفن کردیا جائے۔ بسلسلۂ زیارتِ قبور دعاؤں میں مقابر کی اضافت صرف مسلمانوں کی طرف کرنا ، اس امر کی واضح دلیل ہے۔ بعض الفاظِ نبویﷺ ملاحظہ فرمائیں۔

۱۔         ’اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ دَارَ قَوْمِ مُؤْمِنِیْنَ‘۔احمد ،( صحیح مسلم،بَابُ اسْتحْبَابِ إِطَالَةِ الْغُرَّةِ وَالتَّحْجِیلِ فِی الْوُضُوء ِ،رقم:۲۴۹، سنن النسائی،الْأَمْرُ بِالِاسْتِغْفَارِ لِلْمُؤْمِنِینَ،رقم:۲۰۳۹)

۲۔ ’اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ اَهْلَ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ‘(صحیح مسلم(۴۴/۷)، بَابُ مَا یُقَالُ عِنْدَ دُخُولِ الْقُبُورِ وَالدُّعَاءِ لِأَهْلِهَا،رقم: ۹۷۴)،( سنن النسائی (۴/۹۲۔۹۳) ، الْأَمْرُ بِالِاسْتِغْفَارِ لِلْمُؤْمِنِینَ، رقم: ۲۰۳۷)

نیز شریعت ِ اسلامی میں اموات مسلمین کی زیارت کا حکم ہے۔ جب کہ مشرکین کی قبور کے پاس کھڑا ہونے سے منع کیا گیا ہے۔قرآن مجید میں ہے:

﴿وَلا تُصَلِّ عَلىٰ أَحَدٍ مِنهُم ماتَ أَبَدًا وَلا تَقُم عَلىٰ قَبرِهِ ...﴿٨٤﴾... سورة التوبة

اور بعض روایات میں مشرکوں کی قبروں سے تیزی کے ساتھ گزر جانے کا امر بھی ہے۔ ’’صحیح‘‘ کے باب ’بَابُ مَا جَاء َ فِی قَبْرِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأَبِی بَکْرٍ، وَعُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا۔‘  میں ہے:

’ فَقُلْ : یَسْتَأْذِنُ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ، فَإِنْ أَذِنَتْ لِی فَأَدْخِلُونِی، وَإِنْ رَدَّتْنِی رُدُّونِی إِلَی مَقَابِرِ المُسْلِمِینَ ۔ انتھی ‘

علامہ عظیم آبادی فرماتے ہیں:

’’اس روایت سے مقابر مسلمین کا علیحدہ ہونا ثابت ہوا۔(فتاویٰ،ص:۱۳۲)

مزید آنکہ امت مسلمہ کا تعامل بھی اس بات کا مؤید ہے کہ ہمیشہ مسلمانوں کے قبرستان غیر مسلموں سے علیحدہ رہے ہیں۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو فتاویٰ شمس الحق عظیم آباد،ص:۱۳۰ تا ۱۳۲)

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الجنائز:صفحہ:130

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ