السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
محترم مفتی صاحب! السلام علیکم ! میت کو نہلانے کا طریقہ تفصیل سے تحریر فرمادیں۔ (ایک سائلہ۔ اوکاڑہ) (۶ جولائی ۲۰۰۱ئ)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس سوال کے تفصیلی جواب کے لیے علامہ عبدالرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ کی کتاب’’کتاب الجنائز‘‘ کا اقتباس ملاحظہ ہو۔
’’میت کو غسل دینے کا ارادہ کریں تو اس کا کپڑا اتاردیں۔ مگر بدن کاجتنا حصہ زندگی کی حالت میں چھپانا ضروری ہے اس کو بے ستر نہ کریں، پھر ہاتھ میں کپڑا لپیٹ کر اس کا استنجا کرائیں اور بدن پر کہیں نجاست ہو تو اس کو پاک کریں، پھر وضوء کرائیں اور سرا اور داڑھی میں بال ہوں تو خطمی(ایک بوٹی) سے یا کسی اور صاف کرنے والی چیز سے دھوئیں اور اگر میت عورت ہو تو اس کے سر کی چوٹیوں کو کھول کر اس کا سر دھوئیں، پھر تین بار پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دیں اور اخیر بار پانی میں کافور ملائیں، اگر تین بار سے زیادہ غسل دینے کی ضرورت معلوم ہو تو پانچ بار غسل دیں یا پانچ بار سے بھی زیادہ مگر طاق ہونا چاہیے اور غسل دینے میں داہنی طرف سے شروع کریں۔ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ:
ہم رسول اللہﷺکی بیٹی کو غسل دے رہی تھیں، اسی حالت میں رسول اللہ ﷺ ہم پر داخل ہوئے اور فرمایا کہ ان کو غسل دو اور پانی بیری کے پتوں سے تین بار یا پانچ بار یا اس سے زیادہ اگر تم کو ضرورت معلوم ہو اور اخیر غسل میں کافور ڈالو۔
( اس حدیث سے معلوم ہوا کہ میت کے تینوں غسل پانی اور بیری کے پتوں سے ہونے چاہئیں، اور تیسرے غسل میں کچھ کافور بھی ملا لینا چاہیے، لیکن سنن ابی داؤد میں محمد بن سیرین سے روایت ہے کہ انھوں نے غسل میت کا طریقہ ام عطیہ سے سیکھا تھا، وہ غسل دیتے تھے پانی اور بیری کے پتوں سے دوبار اور تیسری بار پانی اور کافور سے۔)
اور ایک روایت میں ہے کہ ان کی داہنی طرف سے اور وضوء کی جگہوں سے شروع کرو۔ (صحیح البخاری،بَابُ مَا یُسْتَحَبُّ أَنْ یُغْسَلَ وِتْرًا،رقم:۱۲۵۴، وبَابُ مَوَاضِعِ الوُضُوء ِ مِنَ المَیِّتِ، رقم:۱۲۵۶، و صحیح مسلم)
نرمی اور آہستگی سے غسل دیں اور میت سے کوئی مکروہ اور معیوب بات معلوم ہو تو اس کو چھپائیں اورکسی سے ظاہر نہ کریں اور جس مقام میں غسل دیں وہاں پردہ کرلیں۔ حضر ت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم،بَابُ تَحْرِیمِ الظُّلْمِ،رقم:۲۵۸۰)
نیز حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہﷺ نے اپنے مُردوں کی خوبیوں کو بیان کرو اور ان کی برائیوں کے ذکر سے باز رہو۔(سنن ابی داؤد،بَابٌ فِی النَّهْیِ عَنْ سَبِّ الْمَوْتَی ،رقم: ۴۹۰۰)،( سنن الترمذی،بَابُ مَا جَاءَ فِی دَفْنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَیْثُ قُبِضَ،رقم:۱۰۱۹)
علماء لکھتے ہیں کہ غسل دینے والا جب میت کی کوئی اچھی بات دیکھے، مثلاً اس کے چہرہ کا چمکنا اور روشن ہونا یا اس سے خوشبو کا معلوم ہونا تو بہتر ہے کہ اس کو لوگوں سے بیان کرے اور اگر کوئی بات مکروہ دیکھے، مثلاً اس کے چہرے یا بدن کا سیاہ ہو جانا یا اس کی صورت کا بدل جانا یا اس سے بدبو معلوم ہونا تو اس کو لوگوں سے ظاہر کرنا جائز نہیں۔
فقہائے حنفیہ لکھتے ہیں کہ میت کو غسل دینے کے واسطے تخت یا چار پارئی پر پہلے بائیں کروٹ لٹائیں تاکہ غسل دینے میںداہنی طرف سے شروع ہو۔ پھر غسل دیں، یہاں تک کہ اوپر سے نیچے تک تمام بدن کا غسل ہو جائے ۔ یہ ایک غسل ہوا پھر داہنی کروٹ پر لٹا کر اسی طرح غسل دیں، یہ دوسرا غسل ہوا۔ پھر بائیں کروٹ پر لٹا کر اسی طرح غسل دیں یہ تیسرا غسل ہوا۔
فائدہ: جب میت کو غسل دینے کے واسطے تخت یا چار پائی پر فرمائیں تو کس رُخ پر لٹائیں؟ اس بارے میں کوئی حدیث نظر سے نہیں گزری، علماء کی رائیں اس بارے میں مختلف ہیں۔ بعض کہتے ہیں جیسے قبر میں لٹایا جاتا ہے، اسی طرح غسل دینے کے وقت بھی لٹانا چاہیے اور بعض کہتے ہیں اس طرح لٹایا جائے کہ اس کے پیر قبلہ کی طرف ہوں۔ فقیہ سرخسی حنفی کہتے ہیں کہ اصح یہ ہے کہ جس رخ لٹانے میں آسانی ہو اسی رُخ لٹائیں۔
فائدہ: حنفی مذہب کی کتابوں میں لکھا ہے کہ ’’ جس تخت پر میت کو غسل دینا ہو اس کو پہلے کسی خوشبو دار چیز مثلاً اگر یالوبان سے تین بار یا پانچ بار دھونی دے لیں۔‘‘ لیکن اس دھونی کا ثبوت حدیث سے نہیں ملتا ہے۔ ہاں کفن کے دھونی دینے کا ثبوت حدیث سے ہے۔ جیسا کہ تم کو آگے معلوم ہو گا۔
فائدہ: اوپر حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے معلوم ہوا کہ میت کو پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دینا چاہیے، رہی یہ بات کہ بیری کے پتوں کو کس طریق سے استعمال کرنا چاہیے سو اس کے متعلق حدیث سے کوئی تشریح نہیں ملتی ہے۔ فقہائے حنفیہ لکھتے ہیں کہ بیری کے پتوں کو پانی میں جوش دیا جائے اور اسی جوش دیے ہوئے پانی کے پتوں کو پانی میں ڈالیں اور پانی کو خوب حرکت دیںیہاں تک کہ گاج نکلے، پس اس گاج کو میت کے تمام بدن پر ملیں۔ پھر خالص پانی ڈالیں ۔ یہ ایک غسل ہوا ۔ ملک عرب میں یہ دستور ہے کہ بیری کے پتوں کو پانی میں پیس کر میت کو تمام بدن پر ملتے ہیں پھر خالص پانی سے بدن کو صاف کردیتے ہیں۔
فائدہ: میت چونکہ منہ اور ناک سے پانی خارج نہیں کر سکتی، اس وجہ سے فقہائے حنفیہ کہتے ہیں کہ میت کو بلا مضمضمہ( کلی) استنشاق( ناک میں پانی ڈالنا) کے وضوء کرانا چاہیے، اور بعض فقہاء لکھتے ہیں کہ میت کو مضمضہ اور استنشاق اس طرح کرایا جائے کہ انگلی میں کپڑا لپیٹ کر اس کے مسوڑھوں اور دانتوں اور لبوں کو مل دیا جائے اور ناک کے نتھنوں میں انگلی پھرائی جائے اور بعض فقہاء لکھتے ہیں کہ میت اگر جنب ہو تو اس کو مضمضمہ اور استنشاق کے ساتھ وضوء کرانا چاہیے اورفقہائے شافعیہ لکھتے ہیں کہ میت کو مضمضہ اور استنشاق کے ساتھ وضوء کرانا چاہیے، جنب ہو یا نہ ہو۔
میں کہتا ہوں کہ ظاہر یہی ہے کہ میت کو مضمضہ اور استنشاق کے ساتھ وضوء کرانا چاہیے اور اگر مضمضہ اور استنشاق نہ ہو سکے تو وہی کیا جائے جو فقہائے حنفیہ نے لکھا ہے، یعنی انگلی میں کپڑا لپیٹ کر اس کے مسوڑھوں اور دانتوں اور لبوں کو مل دیا جائے اور ناک کے نتھنوں میں انگلی پھرائی جائے۔
فائدہ: تین بار غسل دینے کے بعد میت کی شرمگاہ سے کوئی شئے خارج ہو تو اس کو دھو دینا کافی ہے۔ یا پھر سے غسل دینا چاہیے؟ اس بارے میں علماء کے دو قول ہیں: حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ دھو دینا کافی ہے۔ پھر سے غسل دینے کی ضرورت نہیں اور یہی قول ہے علمائے حنفیہ کا اور محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ تین بار غسل دیا جائے ۔ اگر تین بار غسل دینے کے بعد کوئی شئے خارج ہو تو پانچ بار غسل دیا جائے اور اگر پانچ بار غسل دینے کے بعد کوئی شئے خارج ہو تو سات بار غسل دیا جائے، یہ محمد بن سیرین وہ شخص ہیں جو تجہیز و تکفین کے احکام و مسائل کو تمام تابعین سے زیادہ جاننے والے تھے۔ اور غسل دینے کا طریقہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے سیکھا تھا۔
فائدہ:کوئی مسلمان مر جانے کے بعد نجس و ناپاک نہیں ہوتا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ اپنے مُردوں کو نجس مت کہو، کیونکہ مومن نجس نہیں، نہ زندگی کی حالت میں اور نہ مرنے کے بعد، روایت کیا اس کو سعید بن منصور نے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’شرح بخاری‘‘ میں لکھا ہے کہ اس کی اسناد صحیح ہے۔ اور یہ اثر مرفوعاً بھی روایت کیا گیا ہے۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب