سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(1) ناگہانی موت اچھی ہے یا بری؟

  • 25116
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 5187

سوال

(1) ناگہانی موت اچھی ہے یا بری؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اچانک موت جس سے اللہ کے نبی نے پناہ مانگی ہے اگر کوئی نیک آدمی اچانک حادثہ میں فوت ہو جاتا ہے ، ایسی موت شہادت کی موت تصور کریں گے یا کہ بری موت ہے؟ (عنایت اللہ امین خطیب ببرکھائی و مدرس جامعہ ضیاء الاسلام گہلن ہٹھاڑ)(۲۲ مئی ۱۹۹۲ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اچانک موت بری نہیں۔’’صحیح بخاری‘‘میں حدیث ہے:

ایک شخص نے نبی اکرمﷺ سے عرض کی، میری ماں ناگہانی مرگئی ہے۔ میرا خیال ہے اگر اُسے گفتگو کا موقع میسر آتا تو وہ صدقہ کرتی پس اگر میں اسکی طرف سے صدقہ کردوں تو اُس کے لیے ثواب ہے۔ فرمایا: ہاں۔

وجہ استدلال یہ ہے کہ اُس آدمی نے اپنی ماں کی ناگہانی موت کی اطلاع جب نبیﷺ کو دی تو آپﷺ نے کراہت کا اظہار نہیں فرمایا۔ امام بخاری رحمہ اللہ  نے اپنی ’’صحیح‘‘ میں حدیث ہذا پر بایں الفاظ تبویب قائم کی ہے: ’ بَابُ مَوْتِ الفَجْأَةِ البَغْتَةِ ‘

مصنف کا مقصود اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ اچانک موت مکروہ نہیں البتہ اس کو شہید قرار دینے کے لیے کوئی نص صریح موجود نہیں۔ نجات کا دارومدار انسان کی نیت و اعمال پر ہے۔ علامہ عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ  مسئلہ ہذا کے بارے میں رقمطراز ہیں۔ ناگہانی موت کے بارے میں مختلف روایتیں آئی ہیں۔ بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ ناگہانی موت اچھی نہیں۔

عبید بن خالد سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہﷺ نے ناگہانی موت غضب کی پکڑ ہے۔(سنن أبی داؤد،بَابُ مَوْتُ الْفَجْأَةِ،رقم:۳۱۱۰)

اور بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ناگہانی موت اچھی ہے۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ  اور

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  سے روایت ہے کہ ناگہانی موت مومن کے واسطے راحت ہے اور فاجر کے واسطے غضب ہے۔ (مصنف ابن أبی شیبة ،بَابُ فِی مَوْتِ الْفُجَاء َةِ، وَمَا ذُکِرَ فِیهِ،رقم:۱۲۰۰۷)

علمائے حدیث نے ان حدیثوں میں اس طرح جمع و توفیق بیان کی ہے کہ جو شخص موت سے غافل نہ ہو اور مرنے کے لیے ہر وقت تیار و مستعد و آمادہ رہتا ہو۔ اس کے لیے ناگہانی موت اچھی ہے۔ اور جو شخص ایسا نہ ہو اس کے لیے اچھی نہیں۔ (وَاللّٰہُ تَعَالٰی اَعْلَمُ ۔) (کتاب الجنائز،ص:۱۴)

مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: (فتح الباری،ج:۳،ص:۲۵۴۔۲۵۵)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الجنائز:صفحہ:77

محدث فتویٰ

تبصرے