سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(1073) صدقہ فطر میں معینہ غذائی جنس کی بجائے مالیت وغیرہ ادا کرنا

  • 25083
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 691

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا ’’طعام‘‘(غذائی اشیا) کے مفہوم میں وسعت پیدا کی جاسکتی ہے، تاکہ ہر وہ چیز اس حکم میں شامل ہوجائے جس کو ’’طعام‘‘کہا جاسکتا ہے۔ مثلاً تیل، سبزی، پھل، چاول، گوشت، مٹھائی وغیرہ یا ان میں سے بعض اشیائِ خوردنی کاجواز صرف اس صورت میں ہوگا، جب یقینی طور پرمعلوم ہو کہ ان فقراء و مساکین کیلئے طویل عرصے تک یہ غذائی اشیااستعمال کرنا مشکل ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صدقہ فطر کے لئے حدیث میں جن غذائی اشیا کا نام لیا گیا ہے وہ یہ ہیں:کھجور، جَو، منقیٰ، پنیر اور گندم۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا:

’’اللہ کے رسول ﷺ نے مسلمانوں میں سے ہر غلام، آزاد، مرد، عورت، چھوٹے اور بڑے پرایک صاع کھجور یا ایک صاع جو صدقہ فطر مقرر کیا ہے۔ اور حکم دیا ہے کہ وہ لوگوں کے نماز کی طرف نکلنے سے پہلے ادا کردیا جائے۔‘‘( صحیح البخاری،بَابٌ:صَدَقَةُ الفِطْرِ عَلَی الحُرِّ وَالمَمْلُوكِ ،رقم:۱۵۱۱،۱۵۱۲)

صحیح بخاری میں حضرت ابوسعید خدری کا یہ فرمان مروی ہے:

’’ہم لوگ صدقہ فطر کے طور پر ایک صاع غلہ، یا ایک صاع جویا ایک صاع کھجوریں، یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع منقیٰ نکالتے تھے۔‘‘ ( صحیح البخاری، بَابُ صَاعٍ مِنْ زَبِیبٍ،رقم:۱۵۰۸)

نبی عليه السلام کے زمانہ میں یہی چیزیں زیادہ استعمال ہوتی تھیں۔ ابو سعید خدری کی ایک اور حدیث میں ہے:

’’رسول اللہ ﷺکے زمانہ میں ہم لوگ صدقہ فطر میں ایک صاع کھانا دیا کرتے تھے۔‘‘ (صحیح البخاری،بَابُ الصَّدَقَةِ قَبْلَ العِیدِ،رقم:۱۵۰۹)

ابو سعید خدری فرماتے ہیں:’’ہمارا کھانا جو، منقیٰ، پنیر اور کھجوریں ہوتا تھا۔‘ (صحیح البخاری،بَابُ الصَّدَقَةِ قَبْلَ العِیدِ،رقم:۱۵۱۰)

علمائے کرام نے اس پر قیاس کرکے ہراس چیز کو اس حکم میں شامل کیا ہے جسے لوگ خوراک کے طور پر استعمال کرنے لگیں مثلاً چاول، دالیں وغیرہ ۔ وہ کہتے ہیں :صدقہ فطر ادا کرنے والے کو چاہئے کہ اس چیز کاایک صاع ادا کرے جو علاقے کی عام غذا ہو۔

لیکن کیا غذائی اجناس کے بجائے ان کی قیمت درہم و دینار کی صورت میں ادا کی جاسکتی ہے؟ اس کے جواب میں علما کی مختلف آرا ہیں۔ اکثر علماے کرام اس کی اجازت نہیں دیتے۔ وہ کہتے ہیں کہ صدقہ فطر میں غذائی اجناس ادا کرنا ہی اصل مقصود ہے۔ بالخصوص اس لئے بھی کہ نقد رقم کا غلط استعمال کیا جاسکتا ہے۔ بعض غریب لوگ رقم کو حرام اِخراجات میں خرچ کرسکتے ہیں۔ جبکہ اَحناف اور ان کی رائے سے اتفاق کرنے والے دیگر علما مقصود کا لحاظ رکھتے ہیں، وہ کہتے ہیں:صدقہ فطر کا مقصد یہ ہے کہ محتاجوں کو اس دن سوال کرنے کی ضرورت نہ رہے۔ یہ مقصد جس طرح غلہ دینے سے حاصل ہوتا ہے، اسی طرح دوسری چیز سے بھی حاصل ہوجاتا ہے۔ بلکہ بعض اوقات قیمت ادا کرنا زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ اس لئے کہ اس سے اس کی حاجت زیادہ پوری ہوتی ہے، اور وہ اس کے لئے زیادہ مفید ہوتا ہے۔

بعض علماء فرماتے ہیں:جوچیز غریب آدمی کے لئے زیادہ مفید، اور اس کی ضرورت کو بہتر طور پر پورا کرنے والی ہو، اس کا لحاظ رکھا جائے، وقت اور مقام کی تبدیلی سے یہ چیز بھی تبدیل ہوجاتی ہے۔ محمد بن سلمہ کہتے ہیں:’’خوشحالی کے ایام میں قیمت ادا کرنا مجھے زیادہ پسند ہے، اور سختی (غذائی قلت) کے ایام میں گندم ادا کرنا مجھے زیادہ پسند ہے۔‘‘

شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمہ اللہ  نے بیان کیا ہے کہ بغیر حاجت کے اور بغیر راجح فائدہ کے قیمت (نقدرقم)ادا کرنا ممنوع ہے۔ لیکن ان کے نزدیک حاجت، فائدہ اور انصاف کو مدنظر رکھتے ہوئے قیمت اد کرنا بھی جائز ہے۔ (دیکھئے :مجموع الفتاویٰ:۸۲،۸۳/۲۵)

اس لئے متاخرین میں سے اکثر علما نے اس مسئلہ میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ  کے قول کو ترجیح دی ہے کیونکہ نقد رقم سے ضرورت جس طرح پوری ہوتی ہے، دوسری اشیا سے نہیں ہوتی، اور غریبوں کو صرف خوراک ہی کی ضرورت نہیں ہوتی، بعض اوقات انہیں کھانے پینے سے زیادہ لباس یادوا کی ضرورت ہوسکتی ہے۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:848

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ